کسی شہر میں ایک سنار رہتا تھا۔ اس کی عورت ایک روز پانی بھرنے کنوئیں پر گئی۔ یکایک شور اٹھا کہ سنار کا لڑکا کمہار کے آوے میں گر گیا۔ وہ سنارن اس قدر روئی کہ بے ہوش ہو گئی ۔ غش کی حالت میں اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک بی بی نقاب پوش تشریف لائی ہیں اور فرماتی ہیں کہ اے عورت تو منت مان لے کہ میرا لڑکا کمہار کے آوے سے صحیح سلامت نکل آوے تو میں جناب سیّدہ کا معجزہ سنوں گی۔
اتنے میں ایک طرف سے شور اٹھا کہ سنار کا لڑکا کمہار کے آوے سے زندہ و سلامت نکل آیا۔ سنارن کی غش سے جب آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہے کہ اس کا لڑ کا سامنے کھڑا ہے ( صلٰوۃ) وہ خوشی خوشی اپنے لڑکے کو گھر لے آئی اور بازار سے دو٢پیسے کی شیرینی خرید کر اپنے پڑوسیوں کے پاس گئی اور کیا چلو میرے گھر میں منت پڑھانی ہے۔ جناب سیّدہ کا معجزہ سننے چلو۔ سب عورتوں نے انکار کر دیا۔ وہ روتی ہوئی مایوس ہو کر جنگل کی طرف چلی گئی۔ کچھ دور جانے کے بعد اس نے ایک نقاب پوش بی بی کو دیکھا۔ انہوں نے فرمایا۔ کہ تو بیٹھ جائیں سناتی ہوں۔
مدینہ میں ایک یہودی رہتا تھا۔ اس کی لڑکی کی شادی تھی وہ جناب رُسول خدا صلى الله عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ‘اور عرض کیا کہ مولا میری لڑکی کی شادی ہے اگر حضور اجازت دیں تو آپکی بیٹی فاطمہؑ میرے گھر تشریف لے جائیں حضور صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ذکر جناب امیر سے کرو ا جازت دیں تو تم فاطمہ کو لے جاؤ۔ وہ یہودی حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ‘اور اپنی درخواست پیش کی حضرت نے فرمایا کہ جناب سیّدہ کی خدمت میں عرض کرو ۔ چنانچہ وہ یہودی حضرت فاطمہ کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ اور شادی میں شرکت کی درخواست کی۔
آپ نے فرمایا کہ علی مرتضٰے سے اجازت لوتب چلوں گی۔ اس یہودی نے عرض کیا کہ میں جناب رُسول خدا اور امیر المومنین کی خدمت میں پہلےعرض کر چکا ہوں۔ اب تو آپ خود ہی اس امر کی امختار ہیں۔ آپ نے سواری لانے کے لئے اس سے کہا۔ یہودی سواری لینے چلا گیا۔ جناب سیّدہ نے جانماز بچھا کر دو رکعت نماز پڑھی اور ہاتھ بلند کر کے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے میرے پالنے والے میں تیرے رسول کی بیٹی اور تیری کنیز ہوں۔ نہ میرے پاس کوئی کپڑا ہے اور نہ ہی کوئی سامان ہے۔ ایسی حالت میں شادی میں کیونکر جاؤں ؟ ابھی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ جنت کی حوریں ایک کشتی میں جنت کے زیورات اور لباس لے کر حاضر ہو گئیں۔ ( صلوٰۃ)
حوروں نے اپنے ہاتھ سے جناب سیّدہ کو لباس و زیورات سے آراستہ کیا اور سواری میں بٹھایا۔ جب جنابہ سیّدہ اس یہودی کے گھر پہنچیں تو آپ کے نور سے اس کا مکان روشن اور خوشبو سے معطر ہو گیا۔ ( صلوۃ) اور جتنی یہودی عورتیں تھیں سب بے ہوش ہو گئیں۔ آپ اس حجرے میں تشریف فرما ہوئیں۔ جس میں دلہن تھی کچھ دیر بعد سب عورتوں کو ہوش آگیا۔ لیکن لہن کو ہوش نہ آیا۔ جب سب عورتوں نے اسے دیکھا تو دلہن کو مردہ پایا اور انہوں نے زارو قطار رونا اور پیٹنا شروع کر دیا۔ اب ایک کہرام اور شور برپا ہو گیا۔
جناب سیّدہ کو یہ ماجرہ دیکھ کر بڑا رنج ہوا۔ آپ نے جانماز بچھا کر نمازپڑھی اور خدا کی درگاہ میں عرض کیا کہ پروردگارا میں تیری کنیز خاص اور تیرے رُسول کی بیٹی ہوں تو میری عزت رکھ لے ورنہ یہ لوگ یہی کہیں گے۔ کہ میرے آنے سے دلہن مرگئی ۔ آپ کی دعا ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ دلہن زندہ ہوگئی اور کلمہ پاک پڑھتی ہوئی اُٹھ بیٹھی ( صلوۃ) اور جناب سیّدہ سے عرض کیا کہ آپ بنت رُسول ہیں۔ مجھے دین اسلام کی تعلیم فرمائیں۔ آپ نے اس کو اور پانچ سو یہودی عورتوں کو مسلمان کیا۔ ( صلوۃ) سب نے آپ کو بہت عزت اور بڑی شان کے ساتھ معہ ایک کنیز کے رخصت کیا۔ یہ معجزہ جناب سیّد علیہا السلام کا ایک اور روایت کے ساتھ بھی منسلک کیا جاتا ہے کہ:۔
کسی شہر میں ایک بادشاہ رہتا تھا‘ اس نے ایک روز اپنے وزیر سے کہا کہ سامان شکار تیار کرو ۔ بات ہی بات میں سب سامان شکار تیار ہو گیا۔ بادشاہ اور وزیر دونوں کی لڑکیوں نے بھی ساتھ چلنے کی درخواست کی بادشاہ نے منظور کر لیا۔ چنانچہ یہ لڑکیاں بھی ہمراہ ہو گئیں۔
چلتے چلتے ایک جنگل میں گزر ہوا اور وہیں سب نے قیام کیا۔ اور ناشتہ کرنے میں مشغول ہو گئے کہ یکا یک شدید آندھی آئی اور ایک کو دوسرے کی خبر نہ رہی۔ بادشاہ اور وزیر لشکر سے غائب ہو گئے اور لڑکیوں کا کھٹولا اڑ کر ایک پہاڑ کی چوٹی پر جاڑ کا۔جب طوفان ختم ہوا تو بادشاہ کو اپنا تمام سامان و شکر تو مل گیا۔ لیکن دونوں لڑکیوں کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ مجبور ہو کر بادشاہ اور وزیر دونوں واپس آ گئے۔ اتفاق سے اسی روز کسی دوسرے ملک کا بادشاہ اس جنگل میں شکار کو گیا تھا۔ وہ پانی کی تلاش میں پریشان تھا سپاہی اِدھر اُدھر پانی کی تلاش میں پھرتے رہے۔
اب ان دونوں لڑکیوں کا حال سنو ‘ ماں ‘ باپ سے چھُٹ کر بادشاہ زادی اور وزیر زادی دونوں گلے لگ کر بہت روئیں اور روتے روتے بے ہوش ہو گئیں۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بی بی نقاب پوش تشریف لائی ہیں اور فرماتی ہیں کہ تم منت مان لو ہم اپنے ماں باپ سے ملیں گی تو جناب سیّدہ کا معجزہ سنیں گی ۔ دونوں لڑکیوں کو جب ہوش آیا تو انہوں نے منت مان لی۔ پروردگار عالم مسبب الاسباب ہے وہ سپاہی جو پانی کی تلاش میں گیا تھا۔ جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ دولڑکیاں بیٹھی رو رہی ہیں۔ اس نے ان سے حالات دریافت کئے کہ تم یہاں کیسے آئیں ان لڑکیوں نے سارا واقعہ اس سے بیان کیا۔ اس سیاہی نے لڑکیوں کو تسلی و تشفی دی اور کہا کہ اگر تمہیں اپنے ساتھ لے چلوں تو چلو گی ‘ لڑکیاں راضی ہو گئیں۔ سپاہی نے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان لڑکیوں کا واقعہ بیان کیا۔ بادشاہ نے فوراً اپنے نوکروں کو بھیج کر لڑکیوں کو بلوالیا اور وزیر نے ان لڑکیوں کو بڑے آرام سے اپنے گھر میں رکھ لیا۔
چند روز کے بعد جب ان لڑکیوں کے ماں باپ کو خبر ہوئی کہ فلاں بادشاہ کے ہاں یہ دونوں لڑکیاں زندہ و سلامت موجود ہیں تو ان کو بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے اس بادشاہ کو شکریہ کا خط لکھا اور لڑکیوں کو بھیج دینے کی خواہش کی ‘ اس بادشاہ نے خط کا جواب یہ دیا اور لکھا کہ اگر آپ مناسب سمجھیں‘ تو ان لڑکیوں کی شادی میرے لڑکوں کے ساتھ کر دیں۔ ان لوگوں نے منظور کر لیا اور دونوں لڑکیاں بادشاہ کے یہاں سے رخصت ہو کر اپنے ماں باپ سے ملیں اور سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔ ( صلوۃ)
مگر لڑکیاں جناب سیّدہ کا معجزہ سننا بھول گئیں۔ کچھ دنوں کے بعد دونوں طرف سے شادیوں کے انتظامات ہونے لگے اور تاریخیں مقرر کر کے دونوں کا عقد ہو گیا۔ اور وہ دونوں بڑی دھوم دھام سے رخصت ہو کر اپنے اپنے سرال پہنچ گئیں۔ اتفاق سے جہیز میں ایک قیمتی طلائی آفتابہ تھا وہ دروازے پر رہ گیا ایک سپاہی کو حکم ملا کہ وہ فوراً جا کر وہ طلائی آفتابہ نے آئے۔ سپاہی جب یہاں آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ نہ وہ محل ہے ‘ نہ تخت ہے ‘ نہ بادشاہ نہ کچھ اور سامان ہے ‘ صرف ایک میدان ہے اور وہاں آفتابہ رکھا ہوا ہے۔ سپاہی حیرت میں تھا کہ یہ کیا ماجرہ ہے۔ بہر حال سپاہی نے چاہا کہ وہ لوٹا اٹھائے اور جھک کر اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اس میں سے ایک مارسیاہ نے پھن نکال کر سپاہی کو کاٹنا چاہا۔ یہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹا اور بھاگ کر اپنے بادشاہ کے پاس آیا اور سارا واقعہ اس سے بیان کیا۔
یہ تمام باتیں سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور اس نے لڑکیوں کو بلا کر کہا کہ تم لوگ جادو گر ہو۔ بتاؤ کہ یہ کیا ماجر ہے اور تمہارے والدین کہاں ہیں۔ یہ سن کر لڑ کیاں حیرت زدہ ہوگئیں۔ اور کوئی جواب نہ دے سکیں۔ بادشاہ نے ان لڑکیوں کو قید کر دیا۔ اور کہا کہ کل تم کوقتل کر دینے کے لیے جلاد کے حوالے کر دوں گا۔
قید خانہ میں وزیر زادی نے شہزادی سے کہا کہ نہ معلوم ہم سے کونسی اسیی خطا ہوئی ہے جس کی ہم کو یہ سزاملی ہے اور ہمارے قتل کا فتویٰ صادر ہوا ہے۔ یہ کہہ کر دونوں گریہ زاری میں لگ گئیں اور خدا سے دعا کرنے لگیں۔ روتے روتے ان کی آنکھ لگ گئی۔ خواب میں دیکھا کہ وہی نقاب پوش بی بی آئیں اور فرمانے لگیں کہ تم نے مانا تھا کہ جناب سیّدہ کا معجزہ سنیں گی مگر تم نے بھلا دیا یہ اسی کا عذاب ہے۔ اب تم منت پوری کرو۔ لڑکیوں نے عرض کیا ہم آپ پر قربان ہو جائیں۔ یہ بتائیے کہ ہم قید خانہ میں شیرینی وغیرہ کا کس طرح انتظام کریں۔
آپ نے فرمایا کہ صبح تمہارے آنچل سے دو پیسے گریں گے۔ ان کی شیرینی منگوالینا اور معجزہ سننا۔ چنانچہ صبح کو ایسا ہی ہوا۔ لڑکیوں نے شیرینی منگوا کر مجزہ نا اور اپنی غلطی کی روکر معافی مانگی۔ بادشاہ نے صبح کو جلاد کو بلا کر حکم دیا کہ ان دونوں لڑکیوں کو قتل کر دے۔ جب جلا دلڑکیوں کےپاس آیا تو انہوں نے اس سے کہا کہ ہماری طرف سے بادشاہ کی خدمت میں عرض کرو کہ ہم سے پہلے وہ ہماری چند باتیں سن لیں اس کے بعد قتل کا حکم دیں۔ جلاد نے بادشاہ کی خدمت میں یہ پیغام پہنچایا۔ تو وہ لڑکیوں کے پاس آیا۔ لڑکیوں نے رو کر عرض کیا کہ غریب پرور جب ہم دونوں آندھی سے اڑ کر پہاڑ پر پہنچیں اور روتے روتے بے ہوش ہو گئیں تو ایک نقاب پوش بی بی آئی تھیں اور فرمایا تم جناب سیدہ کی منت معجزہ مان لو تو اپنے والدین سے ملو گی۔ ہم نے منت مان لی تھی۔ لیکن اپنے والدین سے ملنے کے بعد ہم یہ منت بھول گئے ۔ جس کا یہ عذاب تھا۔ اب آپ سپاہی کو پھر بھیجے اور ہمارے والدین کے حالات دریافت کروائیے۔ بادشاہ نے سپاہیوں کو دوبارہ ان کے والدین کے ملک میں روانہ کیا تو وہاں بادشاہ اور اس کا تخت و تاج سب کچھ موجود تھا۔
سپاہیوں نے واپس آ کر بادشاہ سے جب بیان کیا تو اس کو یقین ہو گیا کہ بے شک یہ عذاب الہی تھا۔ اور کچھ نہ تھا۔ بادشاہ خوش ہو گیا اور بچیاں قید سے آزاد ہو گئیں ( صلوٰۃ) یہ دوسرا معجزہ وہ برقعہ پوش بی بی اس سنارن سے کہہ کر غائب ہو گئیں ‘ سنارن اپنے گھر آئی تو دیکھا کہ ان پڑوسیوں کے گھروں میں آگ لگ گئی ہے۔ جنہوں نے معجزہ سننے سے انکار کر دیا تھا۔
دعا کرد کہ بحق محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آل محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح سنارن اور ان لڑکیوں کی مراد پوری ہوئی اسی طرح ہر مومن اور مومنہ اور ہر مسلم اور مسلمہ کی بھی ہر مراد بہ طفیلِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری ہو۔
آمين يَارَبِّ الْعَالَمِينَ