WhatsApp Channel Follow Now

Mojza Mola Mushkil Kusha Full in Urdu | معجزہ مولا مشکل کشا

Hazrat Ali (A.S) is the solution to every problem, miracles of Hazrat Ali (A.S) are written here. If you are in any difficulty, them you are on the Mojza Mola Mushkil Kusha, inshallah your difficulty will be over.

معجزہ مولائے مشکل کشاحضرت علی علیہ السلام

معجزہ نمبر1

شہر ایران میں ایک لکڑ ہارا رہتا تھا جو بہت ہی غریب تھا۔ وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا گذارا کرتا تھا ایک دن اپنی لڑکی سے کہنے لگا کہ بیٹی ہمسایہ کے گھر سے سگریٹ سلگا لاؤ۔ جب لڑکی سگریٹ سلگانے کے لیے گئی تو اس نے دیکھا کہ ہمسائی عورت کلیجی بھون رہی ہے۔ اس لڑکی کا دل کلیجی کھانے کو چاہا لیکن اس عورت نے توجہ نہ کی ۔ لڑکی نے دروازے سے باہر آ کر سگریٹ کو بجھایا اور پھر سگریٹ سلگانے کے لیے اندر چلی گئی یہ اس لیے کیا کہ شاید اب کی دفعہ ہمسائی عورت مجھے کلیجی کھانے کے لیے دے دے مگر پھر بھی اس نے کلیجی کھانے کو نہ دی۔

لڑکی مایوس ہو کر گھر چلی آئی اتنی دیر میں سگریٹ سلگ کر آدھا رہ چکا تھا جب باپ کو سگریٹ دیا تو اس نے کہا بیٹی خود آدھا سگریٹ پی آئی ہو؟ کہا نہیں ابا جان ہمسائی کلیجی بھون رہی تھی اور میرا دل کھانے کو چاہتا تھا اس لیئے میں بار بار سگریٹ کو بجھا کر جلانے کے لیے جاتی تھی کہ شاید مجھے وہ عورت کلیجی کھانے کے لیے دے مگر اس نے مجھے نہیں دی۔ بابا جان آپ میرے لیے کل ضرورکلیجی لائیں لکڑ ہارے نے کہا بیٹی ہمارے گھر میں تو اتنے پیسے نہیں کہ ایک ماچس ہی خریدی جا سکے میں کلیجی کہاں سے لاؤں لڑکی نے کہا بابا جان کل ضرورکلیجی لا ئیں۔

لکڑ ہارے نے کہا اچھا بیٹی دو دن کچھ نہ کھاؤ میں دو دن کی لکڑیاں جمع کر کے بیچوں گا اورتم کو کلیجی لا دوں گا۔ لڑکی نے بھی منظور کر لیا۔ لکڑ ہارا جنگل میں جا کر لکڑیاں جمع کر کے رکھ آیا دوسرے دن جب جنگل میں گیا تو دیکھا کہ لکڑیاں جو اس نے جمع کی تھیں جل کر راکھ ہو چکی تھیں وہ رونے لگا روتے روتے غش کر گیا عالم غش میں دیکھا کہ ایک نقاب پوش کھڑے ہیں ( صلوۃ) اور زمین سے چند سنگریزے اُٹھا کر کہتے ہیں کہ یہ لو جب ان کو بھناؤ تو مشکل کشا کا ختم ضرور دلانا ( صلوۃ ) جب لکڑ ہارا ہوش میں آیا تو دیکھا کہ وہ سنگریزے اس کے ہاتھ میں تھے اس نے وہ جیب میں ڈال لیے اور گھر چلا آیا گھر جا کر دروازے کے پیچھے چھپ رہا۔ بیٹی نے دیکھا کہ باپ کو گئے ہوئے دیر ہوگئی ہے۔ وہ باہر آئی دیکھا کہ باپ دروازے کے پیچھے چھپا ہوا ہے کہا بابا جان اندر آ جائیے۔ باپ نے کہا بیٹی مجھے تم سے شرم آتی ہے وعدہ کر کے گیا تھا کہ تمہارے لیے ضرور کلیجی لاؤں گا لیکن تمام لکڑیاں جل کر راکھ ہو گئیں۔ بیٹی نے کہا بابا جان آپ اندر آجائیں خداوند کریم ہمیں بہت کچھ دے گا۔ جب شام ہوئی لکڑ ہارے نے جیب میں ہاتھ ڈالا وہی سنگریزے نکال کر بیٹی کو دیئے کہ لو بیٹا ان سے کھیلولڑکی نے لے کر ایک کمرے میں پھینک دئیے علی اصبح جب لکڑ ہارے کی بیوی نماز پڑھنے کے لیے اٹھی تو دیکھا کہ کمرے میں ہر طرف روشنی ہی روشنی دکھائی دیتی ہے ڈر کر باہر آئی لکڑ ہارے سے کہا کہ ہمارے کمرے میں ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔

لکڑ ہارے نے کہا کمرے میں جواہرات چمک رہے ہیں ( صلوٰۃ) اس نے ان پر چادر ڈال دی صبح ایک ہیرا لے کر جوہری کے پاس گیا اور کہا یہ ہیر ا تم خرید لو اس کی قیمت مجھے دے دو جوہری بیش قیمت ہیرا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لکڑ ہارے سے کہا گھر سے بوریاں لے آؤ جس قدر تم سے اٹھائی جائیں بھر کر لے جاؤ یہ اس ہیرے کی قیمت ہے لکڑ ہارے سے جس قدر بوریاں اٹھائی گئیں وہ لے گیا اور زمین خریدی جہاں مولا مشکل کشا نے اسے سنگریزے دیئے تھے ( صلوۃ) اس نے وہاں ایک نہایت ہی شاندار محل بنوایا جس میں نہایت آرام اور آسائش کی زندگی بسر کرنے لگا۔ ایک دن لکڑ ہارا اپنی بیوی سے کہنے لگا اب مجھ پر حج واجب ہو گیا ہے۔ میں حج کرنے جا رہا ہوں میرے بعد ہر مہینے مولا مشکل کشا کا ختم ضرور دلانا چند دنوں کے بعد لکڑ ہارے کی بیوی نے اپنی بیٹی سے کہا جاؤ سات قسم کی مٹھائی لاؤ اس پر مولا مشکل کشا کا ختم دلائیں بیٹی نے کہا اماں اب تو ہم بہت ہی امیر ہو گئے ہیں۔ ہم نہیں رنگ رنگ کی مٹھائی پر ختم دلاتے والدہ خاموش ہو رہی کچھ دنوں کے بعد دونوں ماں بیٹی حمام میں غسل کرنے کیلئے گئیں کہ یکا یک غل ہوا کہ حمام کو خالی کیا جائے کیونکہ بادشاہ کی ملکہ اور بیٹی حمام میں غسل کرنے کے لیے تشریف لا رہی ہیں۔چنانچہ سب لوگ چلے گئے۔

لیکن لکڑ ہارے کی بیٹی اور بیوی نہ گئیں انہوں نے کہا کہ ہم تو ملکہ سے بھی زیادہ امیر ہیں ہم نہیں جائیں گے۔ اسی اثنا میں ملکہ اور شہزادی تشریف لا ئیں انہوں نے سُنا ہوا تھا۔ کہ ایک لکڑ ہارا بہت ہی امیر ہو گیا ہے۔ جب لکڑ ہارے کی لڑکی حمام سے باہر نکلی تو شہزادی نے دیکھا کہ اس کے گلے میں بہت ہی قیمت کے موتیوں کا ہار ہے۔ شہزادی نے پوچھا کہ یہ ہار تم نے کہاں سے لیا ہے۔ لکڑ ہارے کی لڑکی نے کہا کہ آؤ ہم تم سہیلیاں بن جائیں یہ ہار تم لے لو میں گھر میں جا کر اور پہن لوں گی ۔ شہزادی نے کہا ہم تم سہیلیاں بن گئی ہیں اس لیے تم ہمارے گھر ضرور آیا کرو۔ ایک دن لکڑ ہارے کی لڑکی شہزادی سے ملنے کے لیے گئی تو شہزادی غسل کر رہی تھی ۔

جب غسل کر کے باہر آئی تو نوکرانی سے کہا کہ کھونٹی سے میرا ہار بھی لاؤ۔ نوکرانی نے کھونٹی پر ہار دیکھا تو غائب تھا۔ شہزادی کو بلایا گیا اس نے لکڑ ہارے کی بیوی اور بیٹی سے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے کہا کہ جب ہم غریب تھے ہم نے اُس وقت بھی چوری نہیں کی اب ہم نے چوری کیوں کرنی تھی لیکن بادشاہ کو یقین نہ آیا اسی وقت حکم دیا کہ دونوں ماں بیٹی کو قید میں ڈال دو اور ان کے گھر کے آگے ایک دیوار کھڑی کر دی جائے۔ ادھر جب لکڑ ہارا حج کرنے کے لیے گیا راستہ میں ڈاکوؤں نے سب کچھ لوٹ لیا وہ بغیر حج کے ہی واپس لوٹ آیا آ کر دیکھا کہ محل کے آگے دیوار کھڑی ہےلوگوں سے پوچھا کہ میرے اہل خانہ کہاں ہیں اور میرے محل کے آگے دیوار کیوں کھڑی ہے۔ لوگوں نے تمام واقعہ بیان کیا۔ لکڑ ہارا بادشاہ کے پاس آیا تمام ماجرائنا بادشاہ سے کہا کہ چوری تو انہوں نے اس وقت بھی نہ کی تھی جب ہم بہت غریب تھے ۔ اب کیوں کرنی تھی۔ بادشاہ کسی طرح نہ مانا لکڑ ہارے نے کہا اگر ان کو قید سے رہا نہیں کریں گے تو مجھ کو بھی قید کر لیں کیونکہ میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ میری بیوی اور بیٹی قید میں رہیں اور میں گھر میں بیٹھوں چنانچہ لکڑ ہارے کو بھی قید کر لیا گیا۔

جب رات ہوئی لکڑ ہارے نے اپنی بیوی اور بیٹی کو بلایا اور پوچھا کہ میرے جانے کے بعد مولا مشکل کشا کا ختم دلاتی رہی ہو ۔ انہوں نے کہا نہیں لکڑ ہارے نے کہا بس یہ اسی کو تاہی کی سزا ہے۔ غرضیکہ تمام رات تو بہ کرتے رہے اور روتے رہے جب نیند آگئی تو عالم خواب میں دیکھا کہ نقاب پوش تشریف لائے ( صلوٰۃ ) اور فرماتے ہیں کہ تم نذر دینی بھی بھول گئے تھے اس لیے عتاب الہی کا نزول ہوا ہے۔ لکڑ ہارے نے کہا میرے پاس نذر دینے کے لیے پیسے موجود نہیں انہوں نے فرمایا کہ اپنا بستر اٹھاؤ نیچے سے پانچ پیسے بر آمد ہوں گے ان کی شیر پنی منگوا کر ختم دلاتا تمام مصیبت ٹل جائے گی۔

صبح جب لکڑ ہارا بیدار ہوا اپنا بستر اٹھایا پانچ پیسے بر آمد ہوئے قید خانہ کے دروازے پر کھڑا ہو گیا ایک نو جوان لڑکا گھوڑے پر آتا ہوا دیکھا اس سےکہالڑ کے مجھے پانچ پیسے کی شیرینی لادے اس نے کہا بوڑھا قید بھی ہو گیا ہے پھر بھی شرینی کھاتا ہے۔ میری تو آج شادی ہے میں بازار سے مہندی وغیرہ خرید نے جارہا ہوں اس لیے میں تمہارا کام نہیں کر سکتا ۔ لڑکا یہ کہہ کر ابھی چند قدم ہی بڑھا تھا کہ گھوڑے سے گرا اور گرتے ہی مر گیا۔ جب لڑکے کے باپ کو معلوم ہوا کہ میرا جوان بیٹا مر گیا تو وہ روتا ہوا قید خانہ کے دروازے سے گزرا لکڑ ہارے نے وہی سوال کیا کہ مجھے پانچ پیسے کی شیرینی لا دو۔ اس آدمی نے کہا میرے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو گزرا ہے۔

میں کیوں نہ اس قیدی کا کام کر جاؤں چنانچہ اسے شیرینی لا کردی اس پر مولا مشکل کشا کا ختم دلا یا لکڑ ہارے نے اس آدمی سے پوچھا کہ تم اتنے آزردہ کیوں ہو اس نے کہا کہ میرا جوان لڑکا مر گیا ہے اور آج اس کی شادی تھی لکڑ ہارے نے کچھ شیرینی اسے دی اور کہا کہ اس کو پانی میں حل کر کے لڑکے کے منہ میں ڈال دیا چنانچہ اس آدمی نے ایسا ہی کیا جو نہی پانی کا قطرہ لڑکے کے حلق میں اتر اکلمہ پڑھتا ہوا اُٹھ بیٹھا۔ادھر دوپہر کے وقت جب باد و شاہ کھانا کھانے کے لیے بیٹھا تو دیکھا کہ ایک خوبصورت چڑیا منہ میں ہار لیے آرہی ہے چڑیا نے ہار اس کھونٹی پر لٹکا دیا با دشاہ دیکھ کر حیران ہوا کہنے لگا اس میں ضرور کوئی راز پوشیدہ ہے۔ اسی وقت لکڑ ہارے کو بلا یا لکڑ ہارے نے رات کا تمام واقعہ بادشاہ کے گوش گزار کیا۔بادشاہ بہت خوش ہوا تاج اتار کر لکڑ ہارے کے قدموں پر رکھ دیا اور کہا آپ میرے باپ اور میں آپ کا بیٹا ہوں جب تک زندہ رہوں گا آپ کی خدمت کروں گا ( صلوۃ)

اے لنگر سفینہ اعجاز انبیاء اے مظہر العجائب برحق ترے فِدا محروم کوئی آپکے دَر سے نہیں گیا کیجئے دَرِ مراد عطا ہمکو بھی شہا

اَللَّهُمَّ صَلِىّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّد

پروردگار عالم !بطفیل اپنے حبیب مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی آلِ پاک اور خصوصاً حضرت علی شیر خدا مشکلکشائے دو جہاں جس طرح لکڑ ہارے کی مشکل کو حل فرمایا اسی طرح تمام مومنین و مومنات کی دینی و دنیاوی جائز حاجات کو برلا اور ہمیں درستی ایمان اور فلاح دارین عطا فرما



معجزہ نمبر2

تیرھویں صدی ہجری کے آخری زمانے کا ذکر ہے ‘ہندوستان میں ایک ریاست تھی جس کا نام تھا جادرہ وہاں شیعانِ حیدر کرّار علیہ السلام کا صرف ایک ہی گھر تھا جس کے سربراہ علی رضا صاحب تھے۔ ریاست میں مسلمانوں کی کافی آبادی تھی۔ لیکن سب کے سب غیر شیعہ تھے۔ البتہ ایک خصوصیت یہ تھی کہ محرم میں ریاست کے نواب صاحب اور تمام مسلمان باشندےتعز ئیے بناتے تھے اور نویں محرم کو تعزیہ نکا لئے تھے۔ دسویں محرم کی رات کو تعزیئے گشت کرتے تھے اور یوم عاشورہ کو ٹھنڈے کر دیئے جاتے۔ یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری تھا۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہندوؤں کا تہوار رام لیلا اور محرم ایک ہی تاریخوں میں واقع ہوئے۔ ہندوؤں نے رام لیلا کا جلوس نکالا تھا‘ مسلمانوں نے تعز ئیے بنائے تھے۔ لیکن رام لیلا کے جلوس کا راستہ بھی وہی تھا جہاں تعز ئیے باہر نکال کر رکھے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے نواب صاحب سے التجا کی کہ رام لیلا کے جلوس کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس کے گذرنے کی وجہ سے تعزیوں کی بے حرمتی ہوگی ۔ لیکن نواب صاحب نے یہ سمجھتے ہوئے کہ میں بھی مسلمان ہوں اور اگر مسلمانوں کی طرف داری کروں گا تو ہندو ناراض ہو جائیں گے اور ریاست میں بدامنی پھیل جائے گی‘ مسلمانوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔

ریاست میں ایک محلّہ پھوٹی تھا۔ اس کے باشندے لکڑی کا تعزیہ بناتے تھے جو پچاس فٹ اونچا اور بارہ فٹ چوڑا ہوتا تھا اور اتنا بھاری ہوتا تھا کہ دو سو آدمی اسے اُٹھاتے تھے اور تعزیہ خانہ کے باہر سڑک پر رکھ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ یہ تعزیہ باہر رکھا ہوا تھا اور رام لیلا کا جلوس ادھر ہی سے گزرا۔ جیسے ہی جلوس قریب آیا تعزیہ چونکہ بیچ سڑک پر رکھا ہوا تھا اور ہندوؤں کا اس کے پاس گذرنا اور اس کو نجس کر دینا یقینی تھا چنانچہ لوگ بھاگے ہوئے علی رضا صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ آپ سرکار کے اتالیق ہیں‘ آپ کچھ کیجئے ۔

علی رضا صاحب نے کہا کہ یہ تعزیہ مولا مشکلکشا کے سپرد کر دیجئے اور خود الگ ہو جائیے۔ پس اس وقت ایک نہایت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ جیسے ہی رام لیلا کا جلوس تعزیہ کے قریب آیا وہ تعزیہ جس کو ہلانے کے لئے دو سو آدمی درکار تھے خود بخود اپنی جگہ سے ہلا اور ہوا میں معلق ہو کر بلند ہونے لگا۔ اور اس قدر اونچا ہوا میں معلق ہو گیا کہ رام لیلا کا پورا جلوس نیچے سے گزر گیا اور اس کے گذر جانے کے کچھ دیر بعد آہستہ آہستہ اپنی جگہ زمین پر آ کر ٹھہر گیا۔ ( صلوۃ)

یہ ایک ایسا معجزہ تھا جس کو ہزاروں آدمیوں نے دیکھا اور حیرت زدہ دیکھتے رہے۔ مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھی کو امام حسینؑ ناراض ہو گئے اور اسی وجہ سے تعزیہ ہوا میں بلند ہو گیا۔ وہ بیچارے یہ نہیں جانتے تھے کہ مولائے ہر دوسرا خیبر کشا جن کے سپر دانہوں نے تعزیہ کیا تھا انہوں نے اس کو بے حرمتی سے محفوظ رکھنے کے لئے مسلمانوں کی مشکلکشائی کی تھی اور تعزیہ کو ہوا میں بلند کر دیا تھا ۔ (صلوۃ)

یہ نکتہ عام مسلمانوں کو اس واحد شیعہ گھرانے نے بتایا جو ریاست میں آباد تھا لیکن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس واقعہ کے بعد کسی مسلمان نے تعزیہ نہیں نکالا اور نواب صاحب سے عام ناراضگی پیدا ہو گئی ۔ کسی مسلمان گھرانے میں کھانا نہیں پکایا گیا۔ ایک عالمگیر سوگ منایا گیا جس کی اطلاع نواب صاحب کو برابر پانچ رہی تھی۔ اسی طرح دن گذر گیا اور رات آگئی۔ رات کو مسلمانوں کے گھروں میں چراغ تک نہیں جلایا گیا۔ ہر طرف تاریکی اور سناٹا تھا، تعزیہ خانے ویران تھے۔ تمام رات یہی کیفیت رہی اور صبح کو حسب معمول تعزیئےٹھنڈے نہیں کئے گئے۔ لیکن ایک اور عجیب و غریب واقعہ ظاہر ہوا۔

ریاست جاورہ کے چند جاروب کش یعنی بھنگی اوربھنگنیں شہر سے دُور ایک گاؤں میں رہتے تھے اور ہر روز سویرے جاورہ آیا کرتے تھے تاکہ شہر میں صفائی کریں۔ معمول کے مطابق جب وہ اپنے گاؤں سے جاورہ کی جانب روانہ ہوئے تو راستہ میں انہوں نے ایک پہاڑی پر جو کہ پہلے بالکل ویران اور اجاڑ تھی، بہت سے تعزیئے رکھے ہوئے دیکھے اور کچھ لوگوں کو بھی دیکھا جو صبح کی نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ (صلوٰۃ)

اس پہاڑی پر پانی کا کوئی چشمہ نہیں تھا لیکن وہاں انہوں نے لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ جاروب کش حیران تھے کہ یہ کون لوگ ہیں جو اس ویران جگہ پر تعزیئے لے کر آئے ہیں۔ یہی سوچتے ہوئے اپنے کام کی جلدی میں وہ شہر جاورہ میں آگئے اور جو بھی ملا انہوں نے یہ خبر اُسے پہنچادی تھوڑی سی دیر میں ہر طرف یہ خبر پھیل گئی۔ اور جوق در جوق لوگ اس پہاڑی کی طرف جانے لگے لیکن وہاں پر اب کوئی موجود نہیں تھا اور نہ کوئی تعزیہ تھا۔

البتہ وہ پہاڑی خوشبو سے مہک رہی تھی اور اس پر ایک جگہ ایک چشمہ بھی پیدا ہو گیا تھا ۔ ( صلوٰۃ ) اس دن سے اس پہاڑی کو جسے وہاں کی مقامی زبان میں ٹیکری کہتے تھے ۔ حُسینی ٹیکری کہا جانے لگا اور یہی نام آج تک مشہور ہے۔ اسی رات جب شہر میں تاریکی تھی اور شہر کے باہر صبح کو جاروب کشوں نے تعزیئےدیکھے تھے‘ ریاست جاورہ کے نواب نے خواب دیکھا کہ نقاب پوش تشریف لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر میرے حسین کی تعزیہ داری بند ہو گئی تو اے نواب تیری سلطنت ختم ہو جائے گی اور تو تباہ ہو جائیگا۔ صبح کو نواب نے فوراً حکم دیا کہ تعزیہ خانوں کو سرکاری خرچ دیا جائے اور باقاعدہ تعزیے بنائے جائیں اور جلوس نکالا جائے۔

ادھر شہر کے باہر تعزیوں کی موجودگی کی خبر مشہور ہوئی اور نواب خود بھی حسینی ٹیکری کی زیارت کو گئے۔ اور وہاں سرکاری طور پر حد بندی کرا کے زیارت امام حسین قائم کی۔ لوگوں کی منتیں مرادیں وہاں آکر پوری ہونےلگیں۔ (صلوٰۃ)

بمبئی کے ایک سیٹھ نے وہاں آکر اپنی تجارت میں ترقی کے لئے دعا مانگی جو پوری ہوئی اور اس کو اندازے سے بہت زیادہ منافع حاصل ہوا۔ اس زمانے میں دو پیسے بڑی قیمت رکھتے تھے۔( صلوۃ) چنانچہ اس نے ادائے نذر کے طور پر اس فیکٹری پر کربلا کے نمونے پر ایک شاندار عمارت تعمیر کر دی جو آج تک مرجع خلائق بنی ہوئی ہے۔ ( صلوۃ)

جو کوئی مومنہ یا مومن حاجت مند شب جمعہ کو نماز کے بعد یہ دعا مانگتا ہے کہ اگر اس کی حاجت پوری ہو تو وہ معجزہ مولا مشکلکشا خود بھی سنے گا اور دوسروں کو سنائے گا تو اللہ تعالی اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔ پس جب حاجت پوری ہو جائے تو یہ معجزہ خود بھی سُنےاور دوسروں کو بھی سنائے اور مشکلکشاؑ کی نذر دے کر حاضرین میں تقسیم کر دے۔

What’s your Reaction?
+1
82
+1
6
+1
190
+1
7
+1
6
+1
8
+1
15

Our aim is only to provide you stories (Kahaniyan). Here you can read every story of your choice for you and your kids in different languages Hindi, Urdu, Punjabi and English.

7 thoughts on “Mojza Mola Mushkil Kusha Full in Urdu | معجزہ مولا مشکل کشا”

Leave a Comment