ایک شخص بیخ کا رہنے والا ہر سال حج بیت اللہ کو جاتا تھا اوربعدِ حج حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتا تھا۔ چونکہ یہ سال بھر کے بعد حاضرِ خدمت ہوتا تھا۔ اس لئے اپنے ہمراہ اپنے شہر کاتحفہ ضرور لاتا اور خدمتِ امام علیہ السلام میں پیش کر دیتا اور چونکہ حضرت جانتےتھے کہ یہ ہمارا دوست ہےلٰہذا آپ اس کا ہدیہ قبول فرما لیتے تھے۔ ایک روز اس شخص کی زوجہ نے کہا کہ اے میرے مالک میں دیکھتی ہوں کہ ہر سال تو جب حج کے لئے جاتا ہے تو اپنے ساتھ‘ اپنے شہر کے تحفے لے جاتا ہے۔ مگر کبھی بھی ان تحفوں کے حوض کچھ نہیں لاتا آخر وہ ہے کون جو تیرا تحفہ توقبول کر لیتا ہے لیکن اس کے بدلے میں تجھے کچھ نہیں دیتا۔
حالانکہ خدا نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ هَلْ جَزَاءُ الاحسان الا الاحسان (سورة رحمن آیت ۶۰) جیسے ہی اس مومن نے یہ جملے سنے کہنے لگا اے عورت تو نے بڑا غضب کیا جو ایسے جملے زبان سے نکلے اس وقت جو کچھ تو نے کہا سب ان حضرت کو خبر ہوگئی ہوگی تیرے جملوں کا ایک ایک حرف ان تک پہنچ چکا ہوگا۔ لہذا تو بہ کر۔
دوسرے سال اسی طرح جب زمانہ حج کا وقت آیا تو یہ برائے حج روانہ ہوا۔ بعد فراغتِ حج حسب دستورِ قدیم اپنے شہر کےتحفے لے کر خدمت امام میں حاضر ہوا تو نصیب اس کا جاگ اٹھا ۔وہ یوں کہ امام علیہ السلام کھانا کھا رہے تھے فرمایا بھائی بہت اچھا وقت آیا ہے تو کھانےمیں شریک ہو جاؤ یہ خوش قسمت تھا امام علیہ السلام کے ساتھ ہی کھانے میں مشغول ہو گیا۔ جب خوب سیر ہو گیا تو خادم طشت و آفتابہ لے کرحاضر ہوا۔ حضرت فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔ عرض کیا آقا کیا ارادہ ہے۔ فرمایا تیرے ہاتھ دھلاؤں گا۔
عرض کیا مولا غلام کی کیا مجال کہ آقا کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ دھوے فرمایا کہ میں تیرے ہاتھ اس وقت اس وجہ سے دھلاؤں گا کہ تو اس وقت ہمارا مہمان ہے۔ جب تو مہمان ہے تو کیا وجہ ہے کہ میں تیرے ہاتھ نہ دھلاؤں سبحان اللہ ! کیا مہمان نواز تھے کہ کھانا ساتھ کھلایا اور ہاتھ بھی دھلانے پر تیارہیں اس لئے کہ یہ مہمان ہے مگر اس نے بہت اصرار کیا کہ مولا غلام سے ایسی خطا نہیں ہو سکتی کہ آپ میرے ہاتھ دھلا ئیں بلکہ میں آپ کے ہاتھ دھلاؤں گا تو امام علیہ السلام نے فرمایا خیر تیری خوشی مگر اے بھائی یہ سمجھ لے کہ اگر اس وقت تو نے میری محبت سے ہاتھ ڈھلائے تو حکم خدا سے ایسی چیز دکھاؤں گا جو تو نے کبھی نہ دیکھی ہوگی۔ یہ فرما کر ہاتھ دھونے لگے جب ایک طشت پانی سے بھر گیا تو فرمایا بھائی ! ذرا ٹھہر جا اور پانی کو روک لے۔ اس نے پانی ڈالنا روکا۔ تو فرمایا دیکھ اس طشت میں کیا ہے عرض کیا پانی ہے۔ فرمایا نہیں بلکہ زمرد منبر ہیں۔
اب جو اس نے دیکھا تو حضرت کے ہاتھ کا دھوون زمر دسبز بن چکا تھا۔ پھر فرمایا پانی ڈال۔ اس نے ہاتھ دھلانا شروع کئے اور جب ثلث طشت پانی سے بھر گیا تو پوچھا دیکھ اب اس طشت میں دیکھ کیا ہے عرض کیا وہی پانی ۔ فرمایا غور سے دیکھ پانی نہیں یاقوت سرخ ہیں۔ جو نہی اس نے غور سے دیکھا تو وہ پانی یاقوتِ سرخ بنا ہوا تھا۔ فرمایا اور پانی ڈال۔ اس نے پھر پانی ڈالنا شروع کیا۔ اور جب تمام طشت پانی سے بھر گیا تو فرمایا ابد یکھ۔ اب اس طشت میں کیا ہے۔ عرض کیا مولا وہی پانی فرمایا نہیں سفید موتی ہیں۔ اب جو اس نے دیکھا تو تمام طشت سچے موتیوں سے بھرا ہوا تھا۔
دیکھا آپ حضرات نے اپنے امام کے وقارِ عظمت اور مقام کو جو پروردِگار عالمیان کے حضور آپ کو حاصل تھا تو وہ پانی مگر جب آپ نےزمرد کہہ دیا تو وہ زمرد سبز ہو گیا اور جب یا قوت کہا تو پانی یا قوت سُرخ بن گیا۔ اور جب موتی کہا تو تمام پانی موتی بن گیا۔یہ اثر تھا زبان امام علیہ السلام میں اور یہ عظمت و دولت تھی ۔ درگاہ پروردگار میں امام پاک کی۔
اب امام پاک نے فرمایا اے بھائی! یہ جواہرات اپنی زوجہ کو لے جا کر دیدے اس لئے کہ اس نے اب کی مرتبہ ہم پر عناب کیا تھا۔ اور یہ عوض ان تحفوں کا ہے جو تو میرے لئے لاتا رہا ہے مگر اپنی زوجہ سے یہ بھی کہہ دینا کہ اگر زمانہ ہم سے موافق ہوتا تو ہم تیرے ساتھ اس سے بھی زیادہ سلوک کرتے ابر ہی یہ بات کہ حضرت نے ہر مرتبہ اس کے تحفوں کا معاوضہ کیوں نہ دیا۔ شاید یہ وجہ ہو کر حضرت خیال کرتے ہوں کہ ایک ہی مرتبہ اس کو اتنا دیدیں کہ بادشاہوں کے خزانہ میں بھی نہ نکلے گا۔
ہر مرتبہ تھوڑا تھوڑا عوض کرنا بہتر نہیں اس سخاوت میں دادا کی شان دکھا رہی کیونکہ حاتم طائی کی تعریف جب لوگوں نے کی کہ وہ ایک ہی سائل کو چالیس دروازوں پر دیتا تھا تو آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ سخاوت تو قابل تعریف نہیں ۔ ایک ہی دروازہ پرا تنا کیوں نہ دیا کہ اس سائل کو دوسرے دروازے پر جانے کی حاجت نہ ہوتی تھی۔ یہاں پوتے نے وہی دکھا دیا۔
ایسا دیا کہ مالا مال کر دیا۔ الغرض یہ مومن دیندار جواہرات بے بہا لے کر حضرت سے رخصت ہو کر اپنے مکان پر پہنچا اور وہ جواہرات اپنی زوجہ کے سامنے لا کر رکھ دیئے اور کہا کہ میں تجھے سے نہ کہتا تھا کہ وہ امام وقت میں جو تو کہ رہ ہے ان کو معلوم ہو جائے گا لٰہذا وہی ہوا کہ ان کو خبر ہوگئی۔ زوجہ یہ جواہرات دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئی۔ اس لئے کہ ایسے جو ہرات کبھی بھی اس کی نظر سے نہیں گزرے تھے اپنے شوہر کو قسم دے کر کہنے لگی کہ اب کے اگر زندہ رہے تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ یہاں تک کہ حج کا زمانہ قریب آگیا اور یہ دونوں زن و شوہر مکان سے روانہ ہوئے۔ حج بیت اللہ کیا۔ اس کے بعد زیارتِ امام زین العابدین علیہ السلام کو چلے ۔ ابھی مدینہ کچھ فاصلہ پر تھا کہ زوجہ اس کی علیل ہوئی اور دفعتاًمرگئی۔
اس مومن کو کوئی تدبیر ہاتھ نہ آئی۔ لہذا میّت کو وہی چھوڑا اور وتا ہوا خدمتِ امام علیہ السلام میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مولا میری زوجہ آپ کی زیارت کے لئے بڑے شوق سے میرے ساتھ آ رہی تھی کہ دفعتًابیمار ہوئی اور فوت ہو گئی ۔ حضرت اٹھے۔ وضو کیا۔ دورکعت نماز پڑھ کر دعا کی اور فرمایا جا خداوندِ عالم نے اپنے حکم سے تیری زوجہ کو زندہ کیا اور اے بھائی ! یہ خوشخبری بھی سن لے کر چونکہ وہ زیارت کے اشتیاق میں آئی تھی اس لئے خداوند تعالٰی نے مزید چالیس سال تک کی زندگی اسے اور بخش دی ہے تا کہ وہ سمجھ تو لے کہ جس کی زیارت کے لئے گئی تھی اس کا مرتبہ پیشِ خدا کتنا بلند ہے۔ یہ سن کر وہ خوشی خوشی اپنی زوجہ کے پاس دوڑتا ہوا پہنچا دیکھاکہ زوجہ اس کی صیح و سالم بیٹھی ہے کہا کہ تو تو مرگئی تھی زندہ کیونکر ہوئی اس نے کہا جب ملک الموت نے میری روح قبض کی اور میری روح لے کر چلے تو میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ جو سفید لباس پہنے ہوئے تھے آئے اور اُن کو جو نہی ملک الموت نے دیکھا مودّب کھڑے ہو گئے جیسے کوئی غلام خدمتِ آقا میں کھڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے ملک الموت سے فرمایا کہ اس عورت کے جسم میں اس کی روح واپس کر دے میں نے خدا تعالیٰ سے دُعا کی ہے اس لئے ابھی یہ عورت چالیس سال تک اور زندہ رہے گی۔ ملک الموت نے عرض کیا سعًاوطاعتًہ اور میری روح میرے جسم میں داخل کر دی اور میں فوراًزندہ ہوگئی ۔ صلوٰۃ
اللهم صلی علی محمد و آل محمداس عورت نے بتلایا کہ اس نے یہ بھی دیکھا کہ ملک الموت نے حضرت کے ہاتھوں کے بوسے لئے اور چلے گئے ۔ مرد مومن نے پوچھا کہ وہ جناب جو تشریف لائے تھے ان کی شکل و شمائل کیسی تھی اور کیا تو اگر ان حضرت کو دیکھے گی تو ان کو پہچان لے گئی ‘اس نے کہا بے شک پس اس کا شوہر اس کو لے کر خدمت امام علیہ السلام میں حاضر ہوا۔ جیسے ہی زوجہ نے امام پاک کے چہرہ مبارک پر نظر کی اپنے شوہر سے کہنے لگی واللہ یہی وہ جناب ہیں جن کے فرمانے سے میں زندہ ہوگئی تھی۔ اور یہی وہ ہیں جن کے ہاتھوں کے بوسے ملک الموت نے لئے تھے۔اللهُمَّ صَلِى عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّد
اے اللہ بطفیل اپنے حبیب مکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی پاک آل اور خصوصاً جناب سیّدسجاد علیہ السلام جس طرح تو نے مر دِمومن اور اس کی زوجہ کی مددفرمائی ۔ بالکل اسی طرح ہر مومن مرد اور مومن عورت کی مددفرما اور ان کی ہر مردا ان ہی پاک ہستیوں کے طفیل پوری فرما۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔اللَّهُمَّ صَلِى عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّد