Chhote Bacchon ke Liye dikhaiye aur parhen Urdu zuban main achi achi kahaniyan.
Of course, young children are not understanding, but their parents want to teach them good manners and loving behavior. Some parents say good things to children. But I think most children love to read Kahaniyan. Most of which are moral, bedtime, short and long kahaniyan are famous.
چالاک کوّا اور چڑیا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل میں چڑیا اورکوّا رہتا تھا۔ ایک ہی درخت پر ان کے گھونسلے تھے۔ چڑیا اور کوّے کی دوستی ہو گئی۔ کوّا بہت چلاک تھا۔ اس کا گھونسلہ بھی بہت اچھا تھا اور وہیں چڑیا کا گھونسلا بہت نازک تھا۔ چڑیا نے سوچا اگر بارش ہوئی تو میرا گونسلہ خراب ہو جائے گا، پھر میں کہاں جاؤں گی۔ چڑیا نے تھوڑی تھوڑی کرکے چیزیں جمع کی اور اپنا گھونسلہ بنا لیا۔ چڑیا مٹھائی لے کر کوّے کے پاس گئی۔ کوّا چڑیا کو دیکھ کر سوچ رہا تھا ”کہ یہ میرے سے کوئی چیز لینے آ رہی ہے اور میں اس کو باتیں کروں گا“ کوّے نے دیکھا کہ چڑیا کے ہاتھ میں مٹھائی تھی۔
چڑیا نے کوّے کو آکر مٹھائی دی اور کوّے نے کھا لی۔ چڑیا نے کہاکوّے بھائی تم نے یہ نہیں پوچھا ”کہ میں یہ مٹھائی کس لیے لائی ہوں“ چڑیا نے کہا میں نے اپنا گھونسلہ بھی اچھا بنا لیا ہے۔ یہ سن کر کوّا کچھ نہ بولا۔ چڑیا واپس آئی تو راستے میں سوچنے لگی دیکھوکوّے بھائی نے مجھے مبارک بھی نہیں دی ہے اور نہ ہی اسے خوشی ہوئی ہے۔ کچھ دن کے بعد بہت تیز بارش آئی اور کوّے کا گھونسلہ خراب ہوگیا اور وہ بھیگتا چڑیا کے گھر کی طرف بھاگا۔ چڑیا کے پاس پہنچتے ہی کہنے لگا ”چڑیا بہن میں تمہارے گھر میں رہ لوں! کیونکہ میرا سارا گھونسلہ خراب ہو گیا ہے“ چڑیا نے کہا ٹھیک ہے۔ چڑیا نے کوّے کی خوب مہمان نوازی کی اور اچھے اچھے کھانے کھلائے۔ کوا کہنے لگا کہ اب میں تویہاں رہوں گا۔ اب تین یا چار دن گزر گئے۔
چڑیا کہنے لگی، کوّے بھائی اب تم نے اپنے گھر نہیں جانا؟ کوّا کہنے لگا اب میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے چڑیا بہن میں کہاں جاؤں گا۔ چڑیا نے کہا کوئی بات نہیں کوّے بھائی ہم دونوں مل کر گھونسلہ بنا لیں گے۔ کوّا تو یہ سوچتا تھا کہ مجھے یہاں سےاچھے کھانے ملتے ہیں۔ وہاں جا کر میں کہاں سے لاؤں گا۔ اب کوّا کھانا کھا کر سو گیا۔ چڑیا نے جاکر کوّے کا گھونسلہ بہت اچھے سے بنایا۔ چڑیا کہنےلگی کوّے بھائی ادھرآؤ میں تمہیں سرپرائز دیتی ہوں۔ چڑیا نے جاکر کوّے کواس کا گھونسلا دکھایا۔ جب کوّے نے دیکھا کہ میرا گھونسلا تو بہت اچھا بن گیا ہے۔ تو کوّا خوشی خوشی اپنے گھونسلے میں چلا گیا اور چڑیا کو شکریہ بھی کہاں۔ اب دونوں ہی خوشی سے اپنے اپنے گھر میں رہنے لگے۔
ضدی خرگوش
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک خرگوش رہتا تھا۔ وہ بہت بھوکا ہونے کے ساتھ ساتھ کمزور بھی تھا کیونکہ گاؤں میں کئی مہینوں سے بارش نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے گاؤں کی فصلیں ختم ہو چکی تھیں۔ گاؤں سے چند میل کے فاصلے پر ایک جنگل تھا جو بہت ہرا بھرا تھا۔ خرگوش جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ جب خرگوش جنگل میں داخل ہوا تو اسے گاجروں کی فصل نظر آئی۔ گاجر کی فصل دیکھ کر خرگوش کے منہ میں پانی آگیا۔ وہ تیزی سے فصل میں داخل ہوا اور پیٹ بھر کر گاجریں کھا لی۔ پیٹ بھر کر کھانے کے بعد خرگوش نے سوچا اس مہینے کا کھانا یہاں سے لے جاؤں، خرگوش نے گاجروں کا ایک گچھا بنایا اور اسے اٹھا کر گاؤں کی طرف چل دیا۔
جنگل اور گاؤں کے درمیان ایک ندی بہتی تھی جس کا پل بہت نازک تھا۔ جنگل، گاؤں میں جس کا آنا جانا ہوتا، وہ پل سے آتا، جاتا۔ خرگوش گاجر کا گچھا لے کر پل پر پہنچا تو وہاں ایک آدمی بیٹھا تھا۔ آدمی نے خرگوش کو روکا اور کہا کہ یہ پل بہت نازک ہے تم گاجروں کا پورا گچھا نہ لے کر جاؤ بلکہ گاجروں کو تھوڑا تھوڑا کرکے لے جاؤ۔ لیکن خرگوش نے کہا نہیں، میں پورا اچھا ہی لے کر جاؤں لوں گا، چنانچہ خرگوش چل پڑا، جیسے ہی وہ آدھے راستے گیا، پل میں دراڑ پڑنے لگے۔ خرگوش ڈر گیا اور گاجروں کا گچھا اس کے ہاتھ سے ندی میں گر گیا اور خرگوش اُداس گاؤں پہنچ گیا۔
دیکھا بچوں کہ خرگوش نے اپنی ضد کی وجہ سے گاجروں کا گچھا کھو دیا۔اس لیے کہتے ہیں کہ جدا اچھی نہیں ہوتی۔