WhatsApp Channel Follow Now

Aik Aadmi Ki Motivational Story in Urdu

ایک شخص جسکا نام عدنان اور اس کی فیملی میں اس کی بیوی نور اور ایک بیٹا علی تھا. وہ اپنی ساری جمع کی ہوئی کمائی کو پرانی سلائی مشینوں کو خریدنے میں انویسٹ کر دیتا ہے. لیکن بدکسمتی سے عدنان کی قسمت اس کا ساتھ نہیں دیتی وہ سلائی مشینیں پوری طرح مارکیٹ سے گر جاتی ہیں، اور اب اِس کی مشینیں بِکنا بہت مشکل ہو جاتے ہیں۔ جس وجہ سے دھیرے دھیرے اِس کی مالی حالت بہت زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔ عدنان اپنی بیوی نور اور اپنے بیٹے علی کے ساتھ ایک کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ علی کی فیس گھر کا کرایہ اور بہت سارے اور بھی خرچے ہیں جن سب کی ذمے داری اب عدنان کی بیوی نور پر آجاتی ہے۔

جس وجہ سے اب ان دونوں کے رشتے خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اس میں عدنان اور اس کی بیوی کی کوئی بھی غلطی نہیں ہوتی مالی طور پر یہ بہت زیادہ جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں، علی بھی بہت محنت کر رہا ہے اور اب اسے اپنا گھر چلانے کے لئے مہینے میں کچھ سلائی مشینوں کو بیچنا ہوگا۔ لیکن ایک بھی مشین بہت مشکل سے بِک پاتی ہے۔

اب ایک دن جب عدنان بازار جا رہا ہوتا ہے تو اِس کے سامنے ایک بہت امیر آدمی اپنی شاندار گاڑی سے باہر نکلتا ہے۔ عدنان اِس گاڑی کو دیکھتا رہ جاتا ہے وہ اپنے آپ کو روک نہیں پاتا اور وہ اُس آدمی سے پوچھتا ہے، میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں وہ آدمی سوال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ عدنان پوچھتا ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ وہ آدمی ایک بلڈنگ کی طرف اشارہ کر کے بتاتا ہے کے میں ایک شیئربروکر ہوں اور جب عدنان اِس بلڈنگ کی طرف دیکھتا ہے تو وہاں سے جو بھی کوئی نکل رہا ہوتا ہے وہ سب کے سب بہت خوش ہوتے ہیں، ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے جو عدنان کی زندگی سے پوری طرح سے غائب ہو چکی ہے۔

اب عدنان بھی تے کر لیتا ہے کہ وہ بھی ایک شیئر بروکر بنے گا۔عدنان گھر جاتا ہے اور اپنی بیوی سے کہتا ہے کے میں سوچ رہا ہوں کے میں اس کام کو چھوڑ دوں اور کوئی نوکری کر لوں اِس کی بیوی کہتی ہے کہ تم بلکل سہی سوچ رہے ہو ویسے بھی تمہاری سلائی مشینوں کو کوئی بھی نہیں خریدتا، وہ کہتا ہے کہ میں سوچ رہا ہوں کے میں ایک شیئربروکر بن جاؤں اِس کی بیوی اِسے حیرانی سے دیکھتے ہوئے اِس کا مذاق اُڑنے لگتی ہے، دراصل اِس کی بیوی کو اِس پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔

ایسے میں عدنان کو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا، اس کی بیوی اب تہہ کر لیتی ہے کہ اب وہ عدنان کے ساتھ نہیں رہے گی اور اب وہ اپنے بیٹے کو لے کر گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ عدنان کو اِس بات سے بہت غصہ آتا ہے وہ اپنی بیوی سے ملتا ہے اور کہتا کہ اگر تم جانا چاہتی ہوں تو جا سکتی ہو پر میرا بیٹا میرے ساتھ رہے گا، کیونکہ عدنان اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتا ہے پراسی دوران عدنان کی بیوی کی کسی دوسرے شہر نوکری لگ جاتی ہے، جس کی وجہ سے اِس کی بیوی کو جانا پڑتا ہے اور عدنان کو اس کا بیٹا واپس مل جاتا ہے۔

عدنان جس گھر میں رہتا ہے اس نے کئی مہینوں سے کرایہ نہیں دیا اور ایک دن اِس کا مالک اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے، کہ تم نے کرایہ ادا نہیں کیا میں نے اپنے گھر کا کام کروانا ہے تم میرا گھر خالی کردو علی کہتا ہے کے مجھے کچھ دنوں کی مہلت اور دو گھر کا مالک کہتا ہے کہ ٹھیک ہے تم میرے گھر کا کام کر دو اس کے بدلے تم ایک ہفتے اور اِس گھر میں رہ سکتے ہو، اسی دوران عدنان نے شیئر مارکیٹ میں اپنی نوکری کے لیے اپلائی کر دیا ہوتا ہے اور اگلے دن اس کا انٹرویو ہے۔

عدنان رات کو گھر کا کام کر رہا ہوتا ہے۔تبھی اِس کے گھر میں پولیس آ جاتی ہے اور اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے دراصل اِس نے پارکنگ ٹکٹ کے چارجز ادا نہیں کیے ہوتے اور اب عدنان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب عدنان پولیس سےعرض کرتا کہ مجھے چھوڑ دو، پولیس کہتی ہے کہ ہمارے کچھ قانون ہیں ہم تمہیں کل صبح 10 بجے سے پہلے نہیں چھوڑ سکتے اور اگلی صبح جب عدنان کو چھوڑا جاتا ہے۔

تو اُس کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے اِسی لئے وہ سیدھا اپنے انٹرویو کے لئے لیے بھاگتا ہوا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس بس کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے، اِس کے کپڑوں پر مٹی لگی ہوئی ہوتی ہے، اور اب وہ باہر بیٹھ کر اپنے نمبر کا انتظار کرتا ہے اور تبھی ایک لڑکی آتی ہے جو اِس کا نام بولتی ہے عدنان کے اندر ہمّت نہیں ہوتی کہ اِس طرح کے کپڑے پہن کر کھڑا ہو جائے وہ کچھ دیر سوچتا ہے اور کھڑا ہو جاتا اور اُس لڑکی کے پیچھے چلا جاتا ہے۔

جہاں پر کچھ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو انٹرویو لے گے، وہ اِس کو دیکھ کر بہت حیران ہوتے ہیں، کیونکہ اِس سے پہلے اتنے گندے کپڑے پہن کر کوئی بھی انٹرویو دینے کے لئے نہیں آیا ہوتا، اِاس سے پہلے کے وہ لوگ عدنان کو کچھ بولتے، علی کہتا ہے کہ میں پچھلے آدھے گھنٹے سے کہانی بنانے کی سوچ رہا ہوں کہ میں یہاں پر اِس طرح کے کپڑے پہن کر کیوں آیا ہوں۔ لیکن میں کوئی کہانی نہیں بنا پایا اور سچ تو یہ ہے کہ ایک رات پہلے مجھے پولیس نے پارکنگ ٹکٹ ادا نہ کرنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا تھا۔ یہ سن کر سب حیران ہو جاتے ہیں، انہیں یہ بات بالکل بھی سمجھ نہیں آتی ان کے لئے پارکنگ ٹکٹ ادا کرنا بہت ہی چھوٹی بات ہے۔

اب عدنان سے وہ لوگ سوال کرنا شروع کرتے ہیں، یہ پوچھتے ہیں کے آپ نے کہاں تک پڑھائی کی ہے علی کہتا ہے کے 12 کلاس تک اور میں اپنی کلاس میں پہلے نمبر پر تھا۔ اِس کے بعد پھر سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہاری کلاس میں کتنے طالب علم تھے عدنان کہتا ہے کے 10، یہ سن کر سب ایک دوسرے کی شکل دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ 10 بچوں میں پہلے نمبر پر آنا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ عدنان اپنی قابلیت دکھانے کی پوری کوشش کرتا ہے لیکن اِس کی باتوں سے کوئی بھی کام نہیں ہوتا یہ تقریبا فیل ہو چکا ہوتا ہے۔

پر اِس سے پہلے کر عدنان کو فیصلہ سنایا جاتا وہ سب سے کہتا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، وہ کہتا ہے کہ اگر کوئی مجھ سے سوال پوچھتا ہے اور مجھے جواب نہیں آتا تو میں صاف صاف کہہ دوںگا کہ مجھے جواب نہیں آتا پر میں ایک بات کی شرط لگا سکتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ جواب کیسے ڈھونڈا جاتا ہےاور میں جواب ڈھونڈ کر رہتا ہوں۔ اِس بات سے سب کے سب تھوڑا سا متاثر ہو جاتے ہیں اور اب جو یہاں پر سب سے سینیئر ہوتا ہے وہ اِس سے کہتا ہے کہ اگر کوئی آدمی میرے پاس بنا شرٹ کے انٹرویو دینے کے لیے آتا ہے اور میں اُسے کام دے دیتا ہوں ایسا کیوں؟ عدنان کہتا ہے شاید اُس نے بہت ہی شاندار پینٹ پہن رکھی ہو گی۔ یہ سن کر سب کے سب ہنسنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہ بہت ہی بہترین جواب ہوتا ہے۔

اِس جواب کے بعد عدنان کو منتخب کر لیا جاتا ہے انہی میں ایک آدمی ہوتا ہے جس کا نام محبوب ہے۔ اُسے عدنان پہلے سے جانتا ہیں۔ عدنان محبوب کو کہتا ہے کہ میں تمہیں سوچ کے بتاؤں گا کہ میں انٹرنشپ میں شامل ہوں گا کہ نہیں، یہ بات سن کر وہ حیران ہو جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے پاگلوں کی طرح تم اِس نوکری کو حاصل کرنے کے لئے مجھے مجبور کر رہے تھے اور آج جب تمہیں منتخب کرلیا گیا ہے تو تم کہہ رہے ہو کہ تم مجھے سوچ کر بتاؤں گے۔

عدنان کہتا ہے کہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ ایک انٹرنشپ ہے اب میرے مالی حالات پوری طرح سے بدل چکے ہے دراصل یہ ایک انٹرنشپ ہوتی ہے جس میں پندرہ (15) لوگوں کو چنا گیا ہے اور چھ مہینے تک انہے کام سکھایا جائے گا اور چھ مہینے بعد پندرہ میں جو ایک منتخب ہوگا اسی کو نوکری ملے گی۔ اب عدنان پوری طرح سے الجھن میں ہوتا ہے کہ اُسے اِس کو نوکری میں شامل ہونا چاہیے کہ نہیں، محبوب کہتا ہے کہ تمہارے پاس کل صبح تک کا وقت ہے اگر تم نے مجھے جواب نہیں دیا تو میں تمہاری جگہ کسی اور کورکھ لوں گا۔ عدنان گھر جاتا ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ انٹرنشپ کو میں شامل ہوگا وہ انٹرنشپ میں شامل ہو جاتا ہے، ساتھ ہی وہ اپنی مشینیں بیچ کر اتنے پیسے اکٹھے کر لیتا ہے کہ اِس کے پاس ابھی چھ مہینے کا بجٹ ہے۔

وہ اپنا گھر بھی تبدیل کر لیتا ہے اب وہ ایک چھوٹے سے گھر میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہتا ہے اور ایک شام جب وہ آفس سے گھر آتا ہے تو اِسے بینک کی طرف گورمنٹ کی طرف سے ایک لیٹر ملتا ہیں۔ جس میں سے لکھا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے ٹیکس نہیں بھرے اسی وجہ سے آپ کے بینک میں جتنے بھی پیسے ہیں وہ سبھی پیسے گورمنٹ لے چکی ہے۔اِس بات سے عدنان کو بہت دکھ ہوتا ہے۔

اس کے پاس اب پیسے کمانے کا کوئی بھی اچھا ذریعہ نہیں ہے حالانکہ وہ گورنمنٹ کو کال بھی کرتا ہے۔ لیکن اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کچھ دن اور گزر جاتے ہیں اور اب وہ اِس گھر کا بھی کرایہ نہیں دے پاتا اور ایک رات کوجب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ واپس آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اُس کا سامان باہر رکھ دیا گیا ہے. اب اُسے نہیں پتہ کہ اِسے کہاں جانا ہے۔ اِس کے پاس اِس کا بیٹا ہے اِس کا سامان ہے اور جیب میں پیسے نہیں ہیں وہ اپنے دوست کے پاس جاتا ہے جس نے نے کبھی اِس سے کچھ پیسے لئے تھے اور عدنان کہتا ہے کہ مجھے میرے پیسے واپس کرو اور اس کا دوست دروازہ نہیں کھولا تا کیونکہ وہ اس کے پیسے نہیں لوٹ آنا چاہتا۔

عدنان پوری طرح پریشان ہو جاتا ہے اس کے پاس اس کا سامان ہے چھوٹا سا بیٹا اِسے سمجھ نہیں آتا کہ اِسے کیا کرنا چاہیے وہ اپنا سامان اور اپنے بیٹے کو لے کر میٹرو سٹیشن پر جاتا ہے اور سوچ رہا ہے کہ وہ کہاں جائے گا نہ تو اُس کے پاس گھر ہے اور نہ ہی پیسے عدنان اپنے بیٹے کو لیکر میٹرو کے ٹوائلٹ میں چلا جاتا ہے اور دروازے کو اندر سے بند کر دیتا ہے وہاں پر نیچے کچھ پیپر بچھا کر اسی پر بیٹھ جاتا اور اپنے بیٹے کو اپنی گود میں لیٹا لیتا ہے۔ اِسے پتا ہے کے آج رات اسے ٹوائلٹ میں گزارنی ہوگی حالانکہ لوگ باہر سے دروازہ بھی کھٹکھٹاتے ہیں لیکن علی دروازہ نہیں کھولتا۔ اب اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں۔

عدنان نے اپنے آپ کو زندگی میں اس سے زیادہ لاچار کبھی محسوس نہیں کیا اگلی صبح وہ اپنے بیٹے کو اسکول چھوڑنے کے بعد خود اپنے کام پر چلا جاتا ہے۔ کام سے آنے کے بعد اپنے بیٹے کو اسکول سے لاتا ہے۔اور اب وہ رات گزرنے کے لئے کوئی جگہ تلاش کرنے کے لئے چلا جاتا ہے۔ اِسے ایک جگہ مل بھی جاتی ہے لیکن وہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ جگہ صرف بچوں اور عورتوں کے لئے ہے۔

عدنان اپنے بیٹے کو اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتا اب وہ ایک مسجد میں جاتا ہیں یہاں پر اسے جگہ مل جاتی ہے لیکن اگر اسے روز مسجد میں رہنا ہے تواسے ٹائم پر یہاں پر آنا ہوگا کیونکہ لائن کے شروع کے کچھ لوگوں کو مسجد میں رہنے کے لئے جگہ ملتی ہے، باقی لوگوں کو جگہ نہیں دی جاتی کیونکہ یہاں پر محدود جگہ ہے اورعدنان کی اصل جدوجہد اب شروع ہوتی ہے حالانکہ اس کا دفتر شام 7 بجے تک ہے لیکن وہ تے کرتا ہے کہ وہ پانچ بجے تک کام کرے گا اسی لئے وہ پورا دن پانی نہیں پیتا کیونکہ اگر اس نے پانی پیا تواسے باتھ روم جانا ہوگا، اس میں ٹائم ضائع ہوگا اور وہ اپنے کام کو پانچ بجے تک ختم نہیں کر پائے گا اسی لئے وہ دن بھر کام کرتا رہتا ہے۔

اسی طرح سے عدنان کے دن گزرنا شروع ہو جاتے ہیں، وہ کام کرتا ہے اپنے بیٹے کو اسکول سے لاتا ہے، اس کے بعد مسجد کی لائن میں لگ جاتا ہے، اور ابھی بھی اس کے پاس ایک سلائی مشین بچی ہوتی ہے۔ جسے وہ بیچ کر کچھ پیسے کمانا چاہتا ہے۔ ایک دن وہ اپنے بیٹے کو سیر کرانے کے لئے لے جاتا ہے۔ اس کا بیٹا تو کھیل رہا ہوتا ہے۔لیکن عدنا اندر سے ٹوٹا ہوا ہے عدنا کے پاس جو سلائی مشین ہوتی ہے وہ اسے لے کر ایک دوکان میں جاتا ہے وہ دوکاندار سلائی مشین کو خریدنا چاہتا ہے، اور جب عدنان سلائی مشین کو چلاتا ہے تو وہ نہیں چلتی اس سے عدنان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس پیسے پوری طرح سے ختم ہوچکے ہیں وہ واپس مسجد جاتا ہے، اور رات کو اُس مشین کو چیک کرتا ہے۔ اسی دوران اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ خراب ہو گیا ہے اور اُس حصے کو خریدنے کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔

وہ اپنے بیٹے علی کو لے کر ہسپتال جاتا ہے، جہاں پر اسے اپنا خون بیچنا پرتا ہے جس کے بدلے اسے پیسے ملتے ہیں اور اس پیسوں سے وہ اُس حصے کو خریدتا ہے۔ اب واپس آنے کے بعد جب وہ اس حصے کو مشین میں لگاتا ہے تو مشین ٹھیک ہو جاتی ہے۔ جس سے اسے بہت خوشی ہوتی ہے اور اب وہ اس مشین کو بیچ کر کچھ پیسے کماتا ہے اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ آج مسجد میں نہیں بلکہ ایک اچھا کمرہ کرائے پر لیتا ہے جہاں پر دونوں کے دونوں رات وہیں پر گزارتے ہیں۔

اب عدنان پوری محنت کر رہا ہوتا ہے۔ وہ پورا دن دفتر میں لوگوں سے ملتا ہے اور گھر واپس آنے کے بعد وہ اپنی پڑھائی بھی کرتا ہے۔ کیونکہ اِس کا ایک امتحان ہونے والا ہے۔ دراصل اس انٹرنشپ میں ایک تھیوری کا امتحان بھی ہے۔ جسے پاس کرنا بہت ہی ضروری ہے۔اور عدنان کے ساتھ جتنے بھی باکی 14 لوگ ہوتے ہیں یہ سب کے سب ہائی کوالیفائیڈ ہوتے ہیں عدنان ہی ایک ایسا ہوتا ہے جو صرف 12 پاس ہوتا ہے۔

امتحان کا دن آتا ہے اور اس نے بہت اچھی تیاری کی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وہ سب سے پہلے امتحان دے کر نکل جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ایک اور شخص ہوتا ہے جو امتحان دے کر اسی کے ساتھ آ جاتا ہے اور جب یہ امتحان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ شخص عدنان سے پوچھتا ہے کہ تمہارا امتحان کیسا ہوا عدنان کہتا ہے کے آسان تھا اور میرا امتحان بہت اچھا ہوا ہے۔

اب وہ دن آ جاتا ہے جب امتحان کا رزلٹ آنا ہے۔ ان سب میں سے ایک آدمی کو نوکری کے لئے چنا جائے گا، اب ایک ایک کہ کے سب کو بلایا جاتا ہے اور جب عدنان کو بلایا جاتا ہے، تو وہاں پر وہی سب لوگ ہوتے ہیں، جن سب نے پہلے عدنان کا انٹرویو لیا تھا۔

ان میں سے جو سب سے سینئر ہوتا ہے وہ عدنان سے کہتا ہے کہ آج تم نے بہت اچھی شرٹ پہننی ہے عدنان کہتا ہے، کہ آج میرا یہاں آخری دن ہے میں نے سوچا کیوں نا میں ایک اچھی شرٹ پہن کر جاؤں سینئر کہتا ہے کہ اگر تمہیں یہ شرٹ کل بھی پہننی پڑے تو کیا تم پہننا چاہو گے، یہ سن کر عدنان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کیونکہ وہ پچھلے چھ مہینے سے بہت جدوجہد کر رہا ہے۔ جس کے بارے میں کسی کو نہیں پتا، اس کے پاس کوئی گھر نہیں ہے، اس کے پاس کھانے کے پیسے بھی پورے نہیں ہیں، ساتھ ہی اس کے پاس اس کے بیٹے کی ذمہ داری ہے۔عدنان کہتا ہے کہ ہاں، یعنی کہ عدنان کویہ نوکری مل چکی ہے اور اب عدنان کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے۔

اور کچھ سالوں بعد عدنان نوکری چھوڑ دیتا ہے اور اپنی خود کی کمپنی کھولتا ہے۔ جسے وہ بعد میں کروڑوں روپے میں بیچتا ہے۔ اب عدنان ایک بہت امیر آدمی ہے اور اب وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے تاکہ لوگ بھی اس کی طرح زندگی میں کامیاب ہو سکے۔

What’s your Reaction?
+1
1
+1
0
+1
0
+1
0
+1
0
+1
0
+1
0

Our aim is only to provide you stories (Kahaniyan). Here you can read every story of your choice for you and your kids in different languages Hindi, Urdu, Punjabi and English.

Leave a Comment