بائیس 22 رجب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی نیاز قریب قریب تمام مومنین کے یہاں ہوتی ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض حضرات وقت کی پابندی اور آداب کا لحاظ نہیں کرتے جس کی وجہ سے دُعا مستجاب نہیں ہوتی اور مراد کو بہت کم پہنچتے ہیں ۔ اس لئے آداب شرائطِ نذر کے متعلق یہ چند باتیں شائع کی جارہی ہیں ۔ مومنین کو چاہیےکہ خود بھی مطالعہ کریں اور اپنے احباب واقارب کو بھی مطالعہ کرائیں۔ (ادارہ)
آداب و شرائطِ نیاز
مومنین کو چاہیئے کہ ۲۲ رجب المرجب بوقت ۳ بجے شب اٹھ کر جس کی صبح ۲۲ رجب ہو گھر کو صاف ستھرا کر کے پاک چاندنی دری یا فرش جو میسّر ہو بچھائیں۔ مکان میں لوبان سلگا ئیں‘ خود کو پاک و پاکیزہ کریں۔ خوشبو سے معطّر کریں اور ایک پاک برتن میں پانی لے کر اس پانی سے سوا سیر میدہ دیا اس قد رکھانڈ ملا کر گوندھ لیں اور ان سب کی چودہ پوریاں یا ٹکیاں بنا کر گھی میں تلیں ۔ جب تیار ہو جائیں تو وہ مٹی کے کورے کونڈے جو کہ پاک پانی سے پہلے دھو لئے ہوں ان میں سات پوریاں ( ٹکیاں) رکھیں اور لوبان سلگائیں۔
نماز صبح کے بعد پہلے یہ معجزہ جو آگے لکھا جاتا ہے بیان کریں۔ اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام کی نیاز دیں اور دعا مانیں ۔ انشاء اللہ مراد پوری ہوگی ۔ اس نیاز کو گھر سے باہر ہرگز نہ نکالیں اور ایک مقام پر مومنین کو بٹھا کر کھلائیں۔
طریقہ نیاز
جس چیز پر نیاز دینی ہو اس کو قبلہ رُخ رکھیں اور خود بھی قبلہ رُخ ہو کر پہلےتین مرتبہ درود پڑھیں پھر ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھیں۔
بوسیلہ رُوح پُر فتوح مقدّس و مطّہر جناب سرور کائنات خاصہ خلاصہ موجودات رحمۃ اللعالمیان صفت الا و میان‘ احمدمحبتٰےمحمد مصطفٰے6 والے بہ نذرِ اقدس جناب امام جعفر صادق علیہ السلام پیش کش (بہ نذرِ ا خلاص سورۂ فاتحہ) سورۃ الحمد پڑھیں اور سورۃ اخلاص پڑھیں پھر تین مرتبہ درود پڑھیں اور دعا مانگیں۔
معجزہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
کسی شہر میں ایک لکڑ ہارا نہایت مفلس اور نا دار رہتا تھا وہ مصیبت زدہ ہر روز جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور فروخت کر کے بمشکل اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ افلاس سے تنگ آکر ایک روز اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ برائے روزگار باہر جاتا ہوں عجب نہیں کہ پروردگار رحم فرمائے اور ہماری مصیبت دور ہو۔ یہ کہہ کر لکڑ ہارا معاش کی تلاش میں دوسرے شہر میں گیا۔ لیکن بدقسمی سے وہاں بھی اس کی تقدیر نے ساتھ نہ دیا۔ ہر وقت دل میں سوچتا کہ کچھ پیسے ہو جائیں تو اپنے شہر جاؤں اور بال بچوں کی خبر لوں۔ لیکن کچھ نہ ہو سکا۔ اسی فکر و پریشانی میں بارہ سال بیت گئے اور اس عرصے میں نہ تو اس نے بال بچوں کو کچھ بھیجا اور نہ ہی ان کی خبر لی۔
لکڑ ہارے کی بیوی اپنے خاوند کے چلے جانے کے بعد کچھ دنوں تک اسی فکر میں رہی کہ میرا خاوند خرچ بھیجے گا۔ لیکن جب اس نے عرصے تک خبر نہ لی اور اس بے چاری پر فاقے گذرنے لگے تو لا چار ہو کر اس نے وزیر کے محل میں جاروب کشی کی نوکری کر لی اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگی۔ ایک روز لکڑ ہاری نے خواب میں دیکھا کہ میں وزیر کے محل میں جھاڑو دے رہی ہوں کہ یکا یک مولا و آقائے دو جہاں جناب امام جعفر صادق علیہ السلام مع اصحاب محسن خانہ وزیر میں تشریف لائے۔ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آج کیا تاریخ ہے اور کونسا مہینہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا مولا آج شب ۲۲ رجب المرجب ہے۔ تب حضرت نے اپنی زبان معجز بیان سے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص کیسی ہی مشکل میں مبتلا ہو یا کسی ایسی ہی سخت حاجت نے پریشان کر رکھا ہو اسے چاہئے کہ سوا سیر میدہ کی پوریاں پکا کر ہمارے نام کی نذر۲۲ رجب المرجب کی بوقت نماز صبح دلوا کر حق سبحانہ تعالٰی کی درگاہ میں ہمارے واسطے سے اپنی حاجت طلب کرے۔ انشاء اللہ حاجت پوری ہوگی۔
جس وقت خواب میں لکڑ ہاری نے حضرت کا یہ کلام سنا اسی وقت بصدق دل نذر کرنے کی نیت کی اور ۲۲ رجب المرجب کو بوقت صبح نماز سے فارغ ہو کر نذر کو موافق حکم جناب امام علیہ اسلام پورا کیا۔
اب ذرا لکڑ ہاری کے شوہر کا حال سنیئے۔
یہاں تو ۲۲ رجب المرجب بوقت صبح یہ لکڑ ہاری نذر امام علیہ السلام دلا رہی تھی اور وہاں لکڑ ہار درخت پر چڑھا ہوا لکڑیاں کاٹ رہا تھا تو اس کے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر زمین پر گری اس نے کلہاڑی کو جو نکالا تو دفینہ کا شبہ ہوا اور اس جگہ کو اس نے کھودا تو معلوم ہوا کہ ایک بڑا خزانہ دفن ہے۔ اس نے اس وقت تو اس کو اسی طرح پوشیدہ کر دیا پھر تھوڑا تھوڑ الا تا رہا اور سامان سفر تیار کرنے لگا اور سارے دفینہ کو نکال کر بڑے کروفر سے عازم وطن ہوا ۔ اپنے رہنے کے لئے ایک عالیشان مکان بنوایا۔ اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آرام سے زندگی بسر کرنے لگا۔ ایک روز لکڑ ہاری نے اپنے خاوند سے ساری سرگذشت بیان کی۔ جب اس نے نذر تاریخ اور وقت بتلایا تو وہی تاریخ اور وہی وقت تھا جب لکڑ ہارے کو دفینہ ملا تھا۔ لکڑ ہارا بھی صدق دل سے ایمان لے آیا۔
ایک دن وزیر اعظم کی بیوی بالا خانے پر کھڑی ہوئی ہوا خوری کر رہی تھی اس کو ایک عالیشان مکان نظر آیا۔ اس نے اپنی کنیزوں سے دریافت کیا کہ یہ مکان کس کا ہے؟ کنیزوں نے بتایا کہ اس لکڑ ہارے کا ہے جس کی بیوی یہاں جاروب کشی پر ملازم تھی ۔ یہ سن کر وزیر کی بیگم نے لکڑ ہاری کو بلوایا اور مفصّل حال دریافت کیا۔ اس نے تمام حال بیان کیا لیکن وزیر کی بیوی کو یقین نہ آیا بلکہ دل میں خیال آیا کہ اس کے خاوند نے رہزنی کی ہے جس کی بدولت یہ مال دار ہوا ہے۔
وزیر کی بیگم کا تو یہ خیال فاسد دل میں لانا تھا کہ اسی وقت وزیر اعظم پر مصیبت آئی کہ وزراء میں ایک وزیر اس کا دشمن تھا۔ اس نے موقع پا کر بادشاہ سے وزیر اعظم کی چغلی کی کہ اس نے غبن کیا ہے۔ حضور عالیجناب اسے طلب فرمائیے بادشاہ نے اس وقت وزیر اعظم کو بلا کر حساب طلب کیا۔ وزیر صحیح حساب نہ دے سکا اور بادشاہ غضبناک ہو گیا۔ وزیر اعظم کا سارا مال و اسباب ضبط کر کے اس کو اور اس کی بیوی کو نکال دیا۔ وہ دونوں بھوکے پیاسے چلے جارہے تھے ‘خربوزہ کا کھیت نظر آیا۔
وزیر اعظم نے اپنی بیگم سے دو درہم لے کر جو اتفاق سے اس کے پاس رہ گئے تھے۔ اس کا خربوزہ خرید کر رو مال میں باندھ لیا کہ کسی جگہ اطمینان سے بیٹھ کر کھائیں گے۔ اتفاق سے جس دن وزیر اعظم پر عتاب آیا تھا۔ اسی دن شہزادہ بھی شکار کو گیا اور رات تک واپس نہ آیا تو بادشاہ نے پریشان ہو کر اپنے وزیروں سے مشورہ کیا کہ ساری رات گزرگئی اور شہزادہ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ اسی وزیر نے جس نے وزیر اعظم کی چغلی کھائی تھی ۔ بادشاہ سے عرض کیا کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے بوجہ دشمنی موقع پا کر شہزادے کو قتل کر دیا۔
یہ سُن کر بادشاہ نے وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ سپاہی گئے اور وزیر اعظم اور اسکی بیوی کو پکڑ لائے۔ اس وقت تک وزیر اعظم نے اس خربوزہ کو نہ کھایا تھا بلکہ اسی طرح رو مال میں بندھا ہوا تھا۔ اسی حالت میں گرفتارہو گیا۔
بادشاہ نے دیکھا کہ رومال میں سے خون چھلک رہا ہے اور و مال کھول کر دکھلایا تو اس میں شہزادہ کا سر نظر آیا۔ بادشاہ اپنے بیٹے کا سر دیکھ کر رونےلگا اور حکم دیا کہ رات بھر وزیر کو قید رکھو ۔ صبح کو قتل کر دینا۔ وزیر اعظم اور اس کی ہوئی جیل میں بھیج دیئے گئے ۔ وزیر اعظم نے اپنی بیوی سے دریافت کیا۔ یہ بات اب تک معلوم نہیں ہو سکی کہ ہم پر یہ نا گہانی مصیبت کیسے آگئی ۔ کون سا گناہ ہم سے ایسا سرزد ہوا جس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس پروزیر کی بیگم نے لکڑ ہارے کا قصہ من و عن بیان کیا۔ اور کہا کہ مجھے اس نذر کا اور حکم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یقین نہ آیا۔ وزیر اعظم نے اپنی بیوی سے کہا اس سے بڑھ کر اور کیا خطا ہوگی تو نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے حکم کو جھٹلایا۔ تو بہ کر۔ امام کا فرمانا درست ہے الغرض دونوں رات بھر گریہ وزاری کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہے۔ صدق دل سے اس نیاز کی بھی نیت کی۔ خداوند عالم نے ان کی توبہ قبول کر لی اور علی الصبح شہزادے نے شکار سے واپس آ کر بادشاہ کی قدمبوسی حاصل کی بادشاہ نے شہزادے سے دریافت کیا کہ اے نور چشم تم اتنے عرصے تک کہاں رہے۔
عرض کیا حضور شکار نہ ملنے کی وجہ سے میں نے باغ میں قیام کیا تھا۔ بادشاہ نے شہزادے کومحل میں جانے کا حکم دیا اور وزیر اعظم اور اس کی بیوی کو طلب کیا اور رومال اور سر کو بھی طلب کیا۔ جس میں بجائے خربوزہ کے سر نظر آیا تھا۔ اس رو مال کو خود کھولا اور دیکھا کہ خربوزہ ہے۔ بادشاہ سخت تعجب ہوا۔ اور وزیر اعظم سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے۔ وزیر اعظم نے جو واقعہ اپنی بیوی سے سُناتھا من وعن بیان کر دیا۔ بادشاہ نے یہ سُن کر لکڑ ہارے اور لکڑ ہاری کو طلب کیا اور اُن سے حالات دریافت کئے۔ انہوں نے تمام واقعہ بیان کر دیا۔ جس کو سُن کر بادشاہ بھی بصدق دل ایمان لے آیا اور وزیر اعظم کو اپنے عہدے پر فائز کر دیا اور چغلخو روز یر کوسزا دے کر نکال دیا۔
خداوند عالم!جس طرح وزیر اعظم اور لکڑ ہارے کے دن پھرے‘ مومنین کے مقاصدِ دلی بر آئیں۔آمین ثم آمین۔
- Islamic Stories
- Mojza Mola Mushkil Kusha
- Mojza Hazrat Muhammad (SAW)
- Chat Pat Bibi Ka Mojza (Kahani)
- Stories in Urdu