In our society, people learn some lessons from stories. Everyone loves to read instructive stories, but few are afraid of finding such stories. We have all kinds of stories, today here we have put good stories in Urdu language which you will definitely like.
دو دوست اور بوڑھا درخت
ایک دفعہ دو دوست جن کا نام حیدر اور احتشام تھا۔ وہ گھنے جنگلوں میں سے گزر رہے تھے۔ اتنے میں انہیں کسی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ جب انہوں نے رونے کی آواز سنی تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگے اور پھر دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا درخت رو رہا ہے۔ جب دونوں دوستوں نے ایک درخت کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ ڈر گئے اور وہاں سے بھاگنے لگے۔ اتنے میں ہی بوڑھے درخت کی آواز آئی ‘رک جاؤ! آواز سن کر دونوں دوست رک گئے اور ڈرتے ڈرتے بوڑھے درخت کے پاس گئے اور کہنے لگے۔ اے بولنے والے درخت تم رو کیوں رہےتھے، اور تم ابھی اتنے اُداس کیوں ہوں؟ دو دوستوں کے پوچھنے پر بوڑھا درخت کہنے لگا۔
کئی سالوں پہلے کی بات ہے کہ میں ایک شکاری تھا اور ایک دن میں نے ہرن کے چھوٹے بچے کو مار دیا اور اس غلطی کی وجہ سے اُس بچے کی ماں نے مجھے بد دعا دی تھی جس کی وجہ سے میں آج بھی درخت بنا ہوا ہوں۔ بعد میں مینے یہاں پر آپ جیسے بہت لوگوں سے مدد مانگی لیکن آج تک کسی نے میری کوئی مدد نہیں کی۔ اب میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں، مجھے اس روپ میں رہ کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بوڑھے درخت کی بیتی ہوئی زندگی کی داستاں سن کر دونوں دوستوں کی آنکھیں بھر آئیں اور دونوں دوست بوڑھے درخت کو کہنے لگے۔ ہم دوسروں جیسے نہیں ہیں ہم آپ کی مدد کرنا کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ دوبارہ انسان بن جائیں۔ اس کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
بوڑھے درخت نے کہا یہاں سے دو سو کلو میٹر دور ایک پہاڑ ہے جس کی اونچائی کئی میلوں کی ہے اس کے اوپر ایک چشمہ بہتا ہے۔ اگر اُس چشمے کا پانی لا کر مجھے پلا دیا جائے تو میں پھر سے اپنے انسانی روپ میں آ جاؤں گا۔ دونوں دوست اُس پہاڑ کے چشمے کا پانی لینے کے لئے نکل پڑے اور کئی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد پہاڑ کے چشمے کا پانی لے کر آگئے اور اس بوڑھے درخت کو پلا دیا۔ بوڑھا درخت انسان کے روپ میں آ گیا اور دونوں دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہوے وہاں سے چلا گیا۔ اب دونوں دوست گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
ماں اور بیٹے کی انوکھی کہانی
ایک نوجوان لڑکے کو ایک لڑکی پسند آگئی اور وہ اُس کو پسند کرنے لگا۔ کچھ دنوں بعد لڑکی بھی لڑکے کو پسند کرنے لگی۔ ایسے میں لڑکے نے اپنی ماں سے شادی کے بارے میں بات کی تو اس کی والدہ کہنے لگی کہ میں تمہاری شادی اپنی بھانجی سے کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن وہ لڑکا کہنے لگا کہ مجھ کو ابھی شادی نہیں کرنی، مجھے جب شادی کرنی ہو گی میں آپ کو بتا دوں گا۔ کچھ سال کے بعد اس نے اپنی ماں سے کہا کہ میں نے شادی کرنی ہے۔ اس کی ماں نے کہا میں اپنی بہن سے بات کرتی ہوں۔
لیکن بیٹا کہنے لگا کہ میں صرف اُس لڑکی سے شادی کروں گا جس کو میں پسند کرتا ہوں، میں نے اُس لڑکی سے وعدہ کیا تھا کے شادی کروں گا تو تم سے ورنہ شادی نہیں کروں گا۔ لڑکے کی ماں کہنے لگی ”میں نے اپنی بھانجی ہی لانی ہے“ لیکن لڑکا نہیں مانا۔ اس کی ماں نے غصے میں آ کر کہا اپنی مرضی کرو جس سے مرضی شادی کرو۔ لڑکے نے اپنی مرضی کی شادی کر لی اور دونوں گھر آ گئے۔ اب لڑکے کی والدہ بہو کو پسند نہیں کرتی تھی اسی وجہ سے اچھا سلوک بھی نہیں کرتی تھی۔
دھیرے دھیرے گھر کے سارے کام اپنی بہو سے کروانا شروع کر دیے، اور ظلم بھی بہت زیادہ کرتی تھی۔ اب بیٹے کے سامنے بلاوجہ اپنی بہو پر الزام لگانا شروع کر دیا۔ تو وہ لڑکا بھی اپنی بیوی کو غلط بولنے لگا۔ کچھ سال کے بعد اس کی طرف بیٹا ہوا ساس کہنے لگی میں اپنی بہو اور پوتے دونوں کو مار دوں گی۔ یہ سننے کے بعد لڑکا اپنی بیوی اور بیٹے کو لے کر گھر سے نکل گیا۔ کچھ ہی مہینوں بعد والدہ نے اپنی بیٹی کی شادی کی تو اس کے سسرال والے بھی ایسا ہی کرتے تھے، اس پر بہت ظلم کرتے تھے۔ پھر اس نے سوچا کہ میں کسی کی بیٹی کے ساتھ غلط کرتی رہی تو اب میری بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے۔ پھراس نے اللہ تعالی سے معافی مانگی اور اپنے بیٹے اور بہو کو اپنے گھر لے آئی۔
سبق: ہر والدین کو چاہیے کہ بچے کی خوشی میں راضی ہو جائیں کیونکہ زندگی بچوں نے بسر کرنی ہے۔
ایک بیٹی کی سچی کہانی
ہروالدین اپنے بچوں سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔ لیکن بچے تو ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شق نہیں کہ ماں باپ بیٹوں سے زیادہ بیٹیوں سے محبت اور پیارکرتے ہیں۔ جب بیٹیاں چھوٹی ہوتی تو ان کو کھلونے اور بہت چیزیں لا کر دیتے لو بیٹا ان سے کھیلو جب بیٹی بڑی ہوتی تو اس کو تعلیم اچھی دلاتے اور قرآن پاک کی تعلیم بھی دلاتے۔ اور اپنی بیٹی کو سلائی بھی سکھاتے، جیسے ہی بیٹی بڑی ہونے لگتی۔ تو ماں باپ فکر میں پڑ جاتے اور اس کا رشتہ دیکھنا شروع ہو جاتے۔ مگر ہر والدین چاہتے ہیں۔ کہ میری بیٹی کے نصیب اچھے ہوں اور اپنوں میں رشتہ ہو جائے۔
جب ددیال اورننیال ٹھکڑا دیتے تو ماں باپ کو بہت دکھ پہنچتا کہ ہم اپنی بیٹی کا رشتہ غیروں میں کریں گے۔ مگر غیروں میں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ لڑکا کیا کام کاج کرتا ہے، مثلا نشہ، چوری، وغیرہ کرتا ہے یہ نہیں۔ غیروں میں یہی کہتے ہیں۔ کہ ہمارا لڑکا بہت شریف ہے اور اس نے کبھی کوئی بُرا کام نہیں کیا نشہ وغیرہ بھی نہیں کیا۔ لڑکے والے لڑکی والوں کو اعتماد میں لے کر ان کی بیٹی کا رشتہ تے کر دیتے ہیں۔ اور منگنی کر لیتے پھر شادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔
جب شادی ہو جاتی تو کچھ سال تک لڑکا سہی رہتا۔ پھر لڑکی کی طرف بچے ہوتے ۔تو اس کو پتہ چلتا کہ میرا شوہر نشہ بہت زیادہ کرتا ہے۔ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اب وہ لڑکی اپنے والدین کو بتاتی ہے۔ کہ آپ نے میرے ساتھ کیا کیاہے؟ والدین کہتے ہیں کہ بیٹا کیا ہوا۔ بیٹی کہتی ہے کہ میرا شوہر نشہ بہت زیادہ کرتا ہے۔ کوئی کام بھی نہیں کرتا اور میں اب کیا کروں؟ اور آپ نے میرا کیا سوچا تھا، آپ نے اس لڑکے کے ساتھ میری شادی کردی۔ والدین کہتے کہ بیٹی ہمیں نہیں پتا تھا کہ تمہارا شوہر نشہ بھی کرتا ہے۔
ماں باپ غصے میں آکر کہتے کے ان کے بچے دے دو بیٹی کہتی ہے ” میرے تین بچے ہیں اب کیسے چھوڑوں میں اپنے بچے نہیں چھوڑ سکتی“بیٹی اپنے والدین سے کہتی ہے کہ آپ نے مجھے سلائی کا طریقہ سکھایا تھا۔ میں لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے اپنے بچوں کو پال سکتی ہوں۔بیٹی والدین کو کہتی ہے، کوئی بات نہیں، میرے نصیب میں ہی ایسا ہی لکھا تھا۔ اب وہ لڑکی کپڑے سلائی کر کے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔
ہر والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کے رشتے دیکھ کہ طریقے سے کریں کیوں کہ بیٹیاں بہت نازک دل کی ہوتی ہیں۔ اور لڑکوں کو نشے سے دور رہنا چاہیئے، جو بچے نشہ کرتے ہے اُن کے والدین کو چاہیے کے اُنہیں سختی سے منہ کریں اور نشہ چھوڑنے پر مجبور کریں۔ یقیناً نشہ انسان کو برباد کرتا ہے۔
بہت شکریہ آپ کا ۔ کہانی پڑھ کر بہت مزہ آیا