قمر اور کامران ایک ہی کلاس کے طالب علم ہیں۔ اور آج پھر قمراور کامران میں لڑائی ہوگئی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ ان کی لڑائی روزانہ ہی ہوتی تھی۔قمر اور کامران آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اور پڑھائی میں بہت اچھے تھے لیکن ان دونوں میں ایک بہت بری عادت تھی اور وہ یہ تھی کہ ان دونوں کی لڑائی ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہو جاتی تھی اور کلاس کے تمام لڑکے بجائے ان دونوں کی لڑائی ختم کرنے کی کوشش کریں، لیکن وہ آگ جلتی پر تیل کا کام کرتے تھے۔
کامران کی چغلیاں قمر کو لگاتے اور جب دیکھتے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں توقمرکے ساتھ گروپ بنا کر رہتے اور کامران کو بالکل اکیلا کردیتے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ کامران، قمر کی جگہ پر بیٹھ گیا تھا۔ اور یہ پیریڈ سرنوید کا، اُردو کا تھا۔
ابھی قمر اپنا بیگ لے کر سر نوید کے کمرے میں داخل ہونے والا تھا کہ تمام لڑکوں نے اسے گھیر لیا اور ان میں سے عثمان بولا ’’قمر آج تو حد ہی ہوگئی، اس کامران کی ہمت دیکھیی تم نے، تم سے پوچھے بغیر وہ تمہاری سیٹ پر بیٹھ گیا ہے۔ پھر عمر نے ٹانگ اَڑائی’’آج تو اس کامران کے بچے کو چھوڑنا مت، بڑا تنگ کر رکھا ہے اس نے تمہیں۔ یہ تمام باتیں سنتے ہی قمرکو بے حد غصہ آگیا۔ وہ تیز تیز قدموں سے کمر کی جانب بھرا۔ غصے سے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔ اس نے سر نوید کے کمرے میں جاتے ہی کامران کو ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ کامران نے تھپڑ کھاتے ہی دھمکی دینے والے لہجے میں کہا’ تم نے مجھے تھپڑ مارا، اب تم دیکھو کہ میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں۔ سارا دن سکول میں دونوں ایک دوسرے کو غصے سے بھری ہوئی آنکھوں سے دیکھتے رہے اورلڑائی ایک سال تک چلی۔
اس دوران سر نوید نے دونوں کی دوستی کرانے کی بہت کوشش کی، سر نوید اچھے مزاج کے انسان تھے اور بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے تاکہ بچے پڑھائی سے اکتاہٹ محسوس نہ کریں۔ قمر اور کامران کی لڑائی اتنے لمبے عرصے تک چلی کہ امتحان سر پر آگئے۔ دونوں نے پورا سال لڑائی پر بہت دھیان دیا اور پڑھائی پر بالکل نہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں امتحان میں فیل ہو گئے۔
سر نوید نے دونوں کو اپنے پاس بلایا اور شفقت بھرے لہجے میں کہا ’’دیکھا بچوں، میں کہا کرتا تھانا کہ تمہاری لڑائی کا نقصان تمہیں ایک دن ضرور ہوگا۔ ایک بار انسان سے غلطی ہو جاتی ہے تو اُسے وہ غلطی بار بار نہیں دوہرانی چاہئے، چلو اب گلے ملو،اس بات پر دونوں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور دونوں گلے مل کر ایک دوسرے سے معافی مانگنے لگے اور سر نوید سے وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی نہیں لڑیں گے۔
دیکھا دوستو آپ نے،یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے۔کہ ہمیں دوسروں کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے اگر ہم دوسروں کی باتوں میں آکر کوئی غلط قدم اٹھائیں گے تو ہمارا حال بھی قمر اور کامران جیسا ہوگا۔ اس کے ساتھ اگر کہیں بھی لڑائی ہو جائے تو ہمیں اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ اسے بڑھانیکی۔