گوالیار بھارت میں ایک ہندور یاست ہے۔ اس ریاست کے مہاراجہ جیوائی اور ان کے تمام خاندان کو سیّدنا حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بے پناہ عقیدت ہے۔ پہلی محرم سے دسویں محرم الحرام تک مہا راجہ جیو اجی اور مہارانیاں وغیرہ فقیری لے کر سبز لباس پہن لیتے ہیں۔ اور اس دوران میں دیگر ریاستی کاروبار تقریباً بند رہتا ہے اور ہوائے تعزیہ وہاری اور محرم کی دیگر تقریبات کے اور کچھ کام نہیں ہوتا۔
یہ واقعہ جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔ دہلی دربار کے دوسرے سال کا ہے۔ جبکہ مہاراج انگلینڈ تشریف لے گئے تھے تو کچھ اور ہی معاملہ ظہور میں آیا۔ وہ یہ کہ ایک روز مقام ‘ هیلمنگھم میں شاہی اہتمام سے فوجی کرتب وغیرہ کی نمائش منعقد ہوئی۔ جس میں ملک معظم انگلستان کے شاہی خاندان کے علاوہ ‘ یورپ اور امریکہ تک کے نمائندے موجود تھے۔ اس موقع پر مہاراج گو ایسار جو گھوڑے کو دوڑاتے آئے تو نہ معلوم کس طرح ان کے صافہ کا پیچ کھلتے ہی ہوا میں لہراتا بل کھا تا زمین پر گرا۔ گھوڑا تھا ان چیزوں سے نا آشنا‘ بُری طرح بد کا۔ اور بدحواس ہو کر اندھا دھند بھاگا۔ شہسوار جانتے ہیں کہ بگڑنے پر اس دیو کا قابو میں لانا کتنا دشوار ہے۔ لہذا مہا راجہ نے بہتیرا رو کا مگر یہ ذرا نرم نہ پڑا۔
بلکہ برقی سرعت سے جہاں شاہی خاندان کے لوگ بیٹھے تھے کے سروں پر پہنچ گیا اور کچھ دور نہ تھا کہ ان ہستیوں کو روندتا ہوا پا مال کر دے کہ بیساختہ مہاراجہ نے یا حسین (ع)کہہ کر ایک جھٹکا لگام کو دیا کہ گھوڑا منہ کے بل زمین پر آ رہا۔ اور کسی نا معلوم طاقت نے گرتے گرتے مہاراج کو اس شان سے کھڑا کر دیا کہ تمام مخلوق مع ملک معظم کے استعجاب سے یکدم کھڑی ہو گئی اور تالیاں بجا بجا کر نعرہ ہائے تحسین ومسرت سے زمین کے طبق ہلا دیئے۔ ( صلوٰۃ)
اللَّهُمَّ صَلِّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّد
اس کا رنامہ پر مہاراجہ کو ۔ ہیرو آف ہارس مین شپ ( شاہسوار عظیم) کا خطاب عطا ہوا۔ اور یورپ اور امریکہ کے اخبارات اور رسائل میں مہاراجہ کے فوٹو اور معرکتہ الآراء مضامین نکلے۔ زمانہ بھر میں مہاراجہ کی بہادری کا سکہ بیٹھ گیا اور بڑے بڑے افلاطون مان گئے کہ واقعی فی زمانہ ایسا شہسوار کوئی نہیں ۔اُدھر ان واقعات کا ایک مفصل اور ارجنٹ تار گو ایسا آیا اور فی الفور سیّد الشہداء امام حسین علیہ السّلام کے احترام میں قلعہ سے تو پیں سر ہونے لگیں۔ لنگر خانے اور بھنڈارے جاری ہو گئے فقیر مسکینوں اور پنڈتوں اور برہمنوں کی موج ہوگئی ۔ اَللهُمَّ صَلِى عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّد
:دوسرا واقعہ
یہ واقعہ یوں ہے کہ جیوا جی مہاراج کی شادی کا زمانہ نزدیک آیا تو پنڈتوں نے پوتھی بچاری تو ماہ محرم کی نویں تاریخ کا مہورت نکلا ۔ اس امرسےعلا وہ ہندو مسلم امراء ووزراء اور سردارانِ ریاست کے خود مہاراج کو بھی سخت فکر دامن گیر ہوئی کہ یہ مہینہ غم و ماتم کا ہے۔ ان دنوں ہندو مسلمان بیاہ شادی اور ہر طرح کی مراسم خوشنودی سے احتراز کرتے ہیں۔ مصلحت یہی ہے کہ شادی کا مہورت بدل دیا جائے ورنہ بڑی گڑبڑ پھیلنے کا احتمال ہے۔ مگر ایسی انوکھی بات بھلا کس طرح چھپ سکتی تھی۔ آناّفاناّسارے شہر میں خبر دوڑ گئی اورمحلّہ محلّہ اور گھر گھر اس کا چرچا ہونے لگا۔
ہر شخص اپنے عقیدے اور عقل کے مطابق رائے زنی کرنے لگا۔ حتیٰ کہ ہلال محرم نمودار ہو گیا۔ اب کچھ عجیب ہی حالت تھی ۔ تھوڑے ہی عرصے میں کتنے ہی چھوٹے بڑے دربار اور خفیہ مشورے منعقد ہوئے۔ مہاراج کی جانب سے پنڈتوں کو سمجھایا گیا مسلمانوں نے پروہتوں کی منتیں کیں کہ پنڈت جی ہم زندگی بھر آپ کا احسان نہ بھولیں گے۔ بڑی کر پا ہو گی۔ دو چار دن کا آگا پیچھا کوئی بات نہیں۔ ذرا مہورت اِدھر اُدھر کر دیا جائے تو اچھا ہے۔ اس منّت سماجت سے بعض پنڈت کسی قدر نزم پڑے۔ بعض نے نیم رضامندی کا اظہار کیا اور بہت ممکن تھا کہ مان جائیں۔ مگر جناب ایک دکھنی پر ہمن انتہائی خوشامد پر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہی کہتا رہا کہ نہیں صاحب نہیں۔ ایساشُبّہ مہورت بارہ بارہ چوبیں چوبیس سال نہیں آتا ۔ کچھ ہی ہو شادی نویں محرم ہی کو ضرور ہوگی۔
الہذا خلافِ مرضی مہاراج کی کلائی میں شادی کی کنگنا باندھ دیا گیا۔ اس بے محل خوشی کے صدمہ سے مسلمان غلامانِ امام مظلوم علیہ السلام کے دل بیٹھ گئے۔ ادھر وہ تاریخ نزدیک آرہی تھی جس میں غریب الوطن پیا سے اہلبیت کے خشک گلے کر بلا کی گرم ریت پر کاٹےگئے۔ اِدھر موضع “پارسین” سرزمین خیمہ وخر سے معمور ہوگئی۔ مارے لاؤ لشکر ساز و سامان کے تِل دَھر نے کوجگہ نہ رہی۔ قسماقسم کےکھانوں کی رنگیں اڑنےلگیں اورجنگل میں منگل ہو گیا۔
سخت گرمیاں تھیں کہ کوہ وصحرا بھاڑ کی طرح تپ رہے تھے۔ عین اس موقع پر جب کہ مہاراجہ جیوانی کا بیاہ رچنے لگا۔ اس دھوم دھام سے کہ جشن فیروزی مات ہو گیا۔ ایساغلغہ بھی دیکھنے سنے میں نہ آیا تھا۔ یکا یک ایک طرف سے کالی آندھی اٹھی کہ دفعتاً رورِروشن میں شب دیجور کا سماں کھنچ گیا ۔ اسیااندھیرا چھایا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھتا تھا۔ پھر کیا تھا دوست دشمن چھوٹے بڑے کی تمیز نہ رہی۔ ارے تو بہ کہاں کے راؤ راجہ اور کیسی بیرونگاہ ہزارستون کا دل بادل شامیانہ جس کے آگے قصر نوشیرواں مات تھا ‘پر کاہ کی طرہ اڑ گیا۔ وہ کھلبلی مچی کہ رہے نام اللہ کا۔ اس زور سے بھگڈر پڑی کہ الامان والحفیظ! کوئی کانٹوں میں الجھا ۔کسی کی درخت سےٹکّر ہوئی۔ کوئی خندق میں گرا ۔
کسی کو ہاتھی گھوڑوں نے کچل ڈالا لٹن پلٹن ۔ رتھ بہلی ۔ نالکی پالکی دم زَدن میں سارا کّر دفرّندار دیا مظہر العجائب۔ ہالی موالی مع مہاراجہ سب غائب ۔وہ چیخ و پکار مچی۔ ایسی گڑبڑ پھیلی کہ تو بہ بھلی۔ اس نفسانفسی میں کہ باپ بیٹے کا نہ بیٹا باپ کا۔ کیا آدی کیا جانور سب تّتر بتّر ہو گئے ۔ سب کا ستیا ناس کر کے زرا آدمی کا طوقان کم ہو چلا تھا۔ کہ جیسے ایک دم لاکھوںتو پوں پربتّی پڑے۔ ( کا دار ہو گیا ) اس زور سے بادل گرجا گویا آسمان پھٹ پڑے گا۔ اور دیکھنے والے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ کوئی اڑھائی پاؤ ‘تین تین بلکہ سیر سیر بھر کے اولے پڑنے شروع ہو گئے۔ اب زمین و آسمان میں کہیں پناہ نہ تھی۔ وہ تن آور درخت جو آندھی سے مجلحلےہو چکے تھے۔
اولوں کی مار سے چر چراچر چرا کر زمین پر آرہے۔ اور وہ مرہٹی فوج جس کی معرکہ آرائیوں سے ملک ہند میں کیسے کیسے انقلابات ظہور میں آئے تھے کہ جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اس خدائی فہر کی تاب نہ لا کر کھیلوں کی طرح بکھر گئی۔ معلوم ہوتا تھا اللہ میاں نے آج اپنی خدائی امام حسین علیہ السلام کو سونپ دی ہے۔ اور حضرت خفا ہو گئے ہیں۔ بس اشارہ کی دیر ہے۔ صورپھونکا اور قیامت آئی۔
آسمانی گولوں یعنی تباہ کن اولوں نے پَل بھر میں پتھراؤ کر دیا۔ ذراسی دیر میں بعید از قیاس سین کھینچ گیا۔ جہاں ابھی ابھی رقص و سرود کی محفل راجہ اندر کے اکھاڑے سے پہلو مار رہی تھی‘ وہاں ہو کے عالم کا سمان برسنے لگا۔ اس بد خو اسی کو کیا کہیئے کہ کہا ر تک نئی نویلی دلہن ریاست کی ملکہ مہارانی کا ڈولہ سنسان بیابان میں چھوڑ کر اڑن چھو ہو گئے۔ مگر یہ جانثاری بھی یادر ہے گی کہ اس حشر انگیزی میں کہ جب کوئی کسی کا نہ تھا، صرف ایک وفادار مسلمان حّسن خان بھیّا نے پیٹھ نہ دکھائی اور یہ شیر دِل ششیر برہنہ لئے مہارانی کےڈولے کی حفاظت کر رہا تھا۔ حالانکہ مہارانی کے کہنے کے باوجود کہ وہ بھی اس آفت میں اپنی جان بچانے کے لئے کہیں چلا جائے۔ مگر شاباش اس کا کہ وہ ڈولہ چھوڑ کر ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہ ہوا۔
خدا خدا کر کے توبہ قبول ہوئی۔ اولے تھے۔ مطلع صاف ہوا۔ اور بھگوڑوں کی جان میں جان آئی۔ جن کے ہاتھ پیر میں کچھ سکت باقی تھی لرزاں و ترساں کھائی خندقوں میں سے نکل کر کیمپ کی طرف رجوع ہوئے۔ ہر طرف ایک عبرت ناک منظر تھا۔ سارا کیا خاک میں مل گیا۔ کیمپ کا کیمپ قلب پریشان کی طرح منتشر تھا۔ لکھولکھا روپے پر پانی پھر گیا۔
اب کہاں کا مہورت اور کہاں کی شادی۔ وہ تو گویا قضا کے منہ سے نکلے۔ مرتے مرتے بچے ۔ مہاراجہ سے لے کر اونٰی خدمت گار تک کے دِل پر حضرت سیّدالشہداء کی عظمت طاری ہوگئی اور وہ باراتی جو نہایت تزک و احتشام سے شادی کا جلوس بن کر گئے تھے ‘ایک لٹےہوئے قافلے کی طرح یا امام حسین ‘یا حسین کرتے ہوئے خاک بسرِشہر کو پلٹے اور عظمت حسین( ع )کے ایسے قائل ہوئے کہ پھر کبھی بھی عزاداری سیّد الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے خوف کسی کو کچھ کہنے کی جرات نہیں ہوئی۔اللهُمَّ صَلِى عَلَى مُحَمَّدٍ وَّال مُحَمَّد
داے اللہ ! بطفیل اپنے حبیب مکرّم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک اور خصوصاً سیّد نا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام جس طرح تو نے مہاراج جیا جی اور ان کے اہل خانہ کی ہر مشکل میں مدد فرمائی بالکل اسی طرح ہر مومن اور مومنہ کی مشکل وقت مدد فرما اور ان کی ہرمرادان ہی پاک ہستیوں کی طفیل پوری کر ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ اَللّهُمَّ صَلِى عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّد