معجزہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
معجزہ(1)
شہر طالقان میں ایک مچھیر اعلی بن صالح طالقانی رہتا تھا۔ وہ روزانہ علی الصبح کشتی لیکر سمندر میں نکل جاتا اور دوپہر کے لگ بھگ جتنی مچھلیاں ہاتھ آتیں، اُن کو فروخت کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا۔ ایک رات جب بستر پر لیٹا تو ایسا سویا کہ وقت مقررہ پر نہ اٹھ سکا۔ بیوی نے جگایا تب جا کر اٹھا۔ لیکن نیند اس کی آنکھوں میں چڑھی ہوئی تھی اور وہ اونگھ رہا تھا۔
بہر حال کشتی لے کر نکل پڑا۔ کشتی کے چپّو بھی ہاتھوں میں سنبھل نہیں رہے تھے۔ اسی نیند کے جھونکے میں کشتی کے چپّو اس کے ہاتھوں سے نکل گئے اور وہ خراٹے لینے لگا۔ کشتی ہوا کے رخ پر بہتی بہتی ایسی جگہ پہنچ گئی جہاں سمندر میں بھنور تھا۔
کشتی بھنور میں پھنس کر چکر کھانے لگی اور اس کے جھٹکوں سے وہ جاگ اٹھا۔ کشتی کو بھنور میں پھنسا دیکھ کر بہت گھبرایا۔ اور چپّوؤں کی مدد سے کشتی کو نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر کشتی اس قدر تیزی سے گھوم رہی تھی کہ الامان ۔ اسی کوشش میں چپّوبھی اس کے ہاتھ سے سمندر میں جاگرے۔ دیکھتے دیکھتے بھنور کے زور سے کشتی کے دو ٹکڑے ہو گئے اور صالح طالقانی بھی سمندر میں ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ خدا کی قدرت کی مدد سے کشتی کا تختہ بہتا ہوا اس کے ہاتھ آگیا اور وہ اس کے اوپر بیٹھ گیا۔
تختہ موجوں کے رحم و کرم پر بہتا چلا جارہا تھا۔ دور دور تک خشکی کے آثار نہ تھے۔ تین دن اور تین راتیں اس تختہ پر گذر گئیں۔ طالقانی بھوک اور پیاس سے دم بہ لب ہو گیا اور نیم بیہوشی کے عالم میں سوچنے لگا کہ شاید میرا وقت آن پہنچا ہے۔ اور دل میں کہا اے امام موسیٰ کاظم آپ تو ”باب الحوائج “ہیں ۔ آپ تو بگڑی کے بنانے والے اور حاجتمندوں کی حاجت قبول کرنے والے ہیں۔ آپ ہی میری امداد کو پہنچیں۔
فریاد کو پہنچو دم امداد ہے آؤ یا موسیٰ کاظمؑ حسنینؑ کا صدقہ مری بگڑی کو بناؤ یا موسیٰ کاظمؑ تکلیف مسافر کو کبھی ہو نہ سفر میں‘ ایذا نہ حضر میں گھر خیر سے پہنچاؤ‘ عزیزوں‘ سے ملاؤ یا موسیٰ کاظمؑ
کبھی سوچتا کہ سمندر میں خود کو گرا دوں تا کہ اس زندگی ناتمام کا خاتمہ ہو جائے۔ غرض کہ طالقانی نقاہت کی وجہ سے بیہوش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک اس کے تختے کو زبر دست جھٹکا لگا اور تختہ خشکی کے ٹکڑے پر جالگا۔ ( صلوٰۃ)
طالقانی کی آنکھ جب جھٹکےکی وجہ سے کھلی تو خود کو خشکی پر پایا اوراِدھراُدھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ہر طرف طرح طرح کے پھلوں کے درخت موجود ہیں اور چہار طرف نہریں رَواں دَواں ہیں۔ اس نے کچھ دیر ستانے کے بعد ایک درخت پر چڑھ کر خوب پھل کھائے اور نہر کے پانی سے سیراب ہوا۔ پھر وضو کر کے دو٢ رکعت نماز شکرانہ ادا کی اور اسی درخت کے نیچے پڑ کر سو گیا۔ اسی اثنا میں ایک خوفناک آواز پیدا ہوئی جس کی وجہ سے وہ بیدار ہو گیا دیکھا تو گھوڑے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ جیسے ہی گھوڑوں نے اس کو دیکھا فور اًسمندر میں چلے گئے۔ پھر ایک عظیم الخلقت پرندہ جو کہ ہاتھ سے بھی دس (۱۰) گنا بڑا تھا ۔ آ کر پہاڑ پر بیٹھ گیا۔
طالقانی درختوں کے درمیان سے ہوتا ہوا اس پہاڑی کے قریب پہنچا۔ وہ پرندہ اس کو دیکھ کر ایک طرف کو اڑا اور وہ اس کے پیچھے چلاکہ دیکھے کہ کدھر جاتا ہے۔ تھوڑی دور جانے کے بعد اسے تلاوت قرآن مجید ‘تسبیح و تہلیل اور تکبیر کی آواز سنائی دی جو کہ ایک غار سے بلند ہو رہی تھی۔ جب اور قریب پہنچا تو غار کے اندر سے صدا آئی۔ ”اے علی بن صالح طالقانی خدا تم پر رحم کرے‘ غار کے اندر آ جاؤ۔ ( صلوٰۃ)
جب وہ اندر داخل ہوا تو دیکھا ایک نورانی چہرہ والے کھدر پوش تشریف فرما ہیں اس نے انکو سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا اے علی بن صالح تم معدن اکنوز ہو‘ بھوک‘ پیاس ‘اور خوف کے امتحان میں پاس ہوئے۔ اللہ تعالٰی نے تم پر رحم کیا تمہیں نجات دی اور پاکیزہ پانی پلایا۔
میں اس وقت سے واقف ہوں جب تم کشتی پر سوار تھے اور سمندر میں تمہاری کشتی ٹوٹ گئی ۔ کافی دور تک موجوں کے تھپیڑے کھاتی رہی۔ تم نے اپنے آپ کو سمندر میں گرانے کا ارادہ کیا۔ اگر ایسا کرتے تو خود موت کو دعوت دیتے۔ تم نے مصیبت اٹھائی۔ میں اس وقت کو بھی جانتا ہوں جب تم نے نجات پائی اور دو خوبصورت چیزیں دیکھیں۔
طالقانی نے جب اس شخص کی باتیں سنیں تو ان سے دریافت کیا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم اور حضرت محمدمصطفٰے صلی اللہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرین کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ کون ہیں اور آپ کا اسم گرامی کیا ہے اور آپ کو میرے حالات کس نے بتائے۔
آپ نے فرمایا اے علی بن صالح طالقانی میں زمین پر اللہ کی حجت ہوں اور میرا نام موسیٰ بن جعفر (علیہ السلام) ہے۔ ( صلوٰۃ) پھر آپ نے فرمایا کہ تم بھوکے ہو۔ میں نے عرض کیا بیشک یہ سن کر آپؑ نے اپنے لبوں کو حرکت دی۔ اور ایک دستر خوان رومال سے ڈھکا ہوا حاضر ہو گیا انہوں نے دستر خوان سے رومال ہٹایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے جو رزق دیا ہے۔ آؤ اور اسے کھاؤ۔ میں نے کھانا کھایا۔ یہ ایسا پاکیزہ کھانا تھا جو بھی نہ کھایا تھا۔
پھر مجھے پانی پلایا جو ایسا لذیذ اور میٹھا تھا جو میں نے کبھی نہ پیا تھا۔ پھر انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور مجھ سے فرمایا اے علی بن صالح تم گھر جانا چاہتے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا۔ ناگاہ بادل کے ٹکڑے آنے لگے اور غار کے دروازے کو گھیر لیا۔ جب بادل ان کے سامنے آیا تو اس نے بحکم خدا اسلام کیا۔ ”اے اللہ کے ولی اور اس کی حجت آپ پر سلام ہو ۔“ انہوں نے جواب سلام دیا پھر بادل کے ٹکڑے سے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ اور کس زمین کے لئے تم بھیجے گئے ہو؟ اس نے زمین کا نام لیا اور چلا گیا۔ پھر ابر کا ایک ٹکڑا سامنے آیا اور آکر سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور پوچھا کہاں جانے کے لئے آیا ہے۔ کہا طالقان جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا اے خدائے وحدہ‘ لاشریک کے اطاعت گزار ابر جس طرح اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ چیزیں اٹھا کر لے جا رہا ہے اسی طرح اس بندہ مومن کو لے جا۔
جواب ملا۔ بسر و چشم ۔ پھر انہوں نے ابر کو حکم دیا کہ زمین پر برابر ہو جا۔ وہ زمین پر آ گیا۔ پھر میرے بازو کو پکڑ کر اس پر بٹھا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے بادل کو حکم دیا کہ انہیں لے جا کر پہنچادے۔
بادل بلند ہو کر ہوا کے دوش پر چل پڑا۔ خدا کی قسم مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور نہ خوف لاحق ہوا۔ میں تھوڑی دیر بعد طالقان جا پہنچا اور ٹھیک اسی سڑک پر اترا۔ جہاں میر امکان واقع تھا۔ ( صلوٰۃ)
اے اللہ ! جس طرح علی بن صالح طالقانی کی مراد یہ طفیل جناب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پوری ہوئی اسی طرح ہر مومن اور ہر مومنہ کی مشکلات حل کر۔ آمین ثم آمین
- Islamic Stories
- Mojza Hazrat Muhammad (SAW)
- Mojza Mola Mushkil Kusha
- Mojza Imam Jafar Sadiq A.S
- Chat Pat Bibi Ka Mojza (Kahani)
معجزہ(2)
حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی زندگی میں تو حاجتیں آپ کے توسّل سے پوری ہوتی ہی تھیں۔ شہادت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ آپؑ کے روضہ مبارک کاظمین شریف پر جو شہر بغداد سے باہر ہے ایک اندھا بوڑھاسیّد نہایت مفلسی کی حالت میں روضہ کے اندر گیا۔ اور جیسے ہی اس نے ضریح اقدس کو اپنے ہاتھ سے مس کیا وہ فوراً باہر کی طرف چلاتا ہوا دوڑتا آیا۔ ” مجھے بینائی مل گئی“ ۔ مجھے بینائی مل گئی ۔ میں دیکھنے لگا ہوں ۔ “ ( صلوٰۃ)
اس پر لوگوں کا بڑا نجوم ہو گیا اور لوگ اس کے کپڑے بطورتّبرک چھین جھپٹ کر لے گئے۔ اس کو تین دفعہ کپڑے پہنائے گئے اور ہر بار وہ کپڑے دھجیوں میں ہو کر تقسیم ہو گئے۔ آخر خدّام نے اس خیال سے کہ کہیں اس کے جسم کو نقصان نہ پہنچے اس بوڑھے سیّدکو اس کے گھر پہنچا دیا۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ بغداد کے ہسپتال میں علاج کرا رہا تھا، بالآ خرسب ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر اُسے ہسپتال سے نکال دیا کہ تیرا مرض لاعلاج ہے اور اب اس کا علاج ناممکن ہے۔ تب میں مایوس ہو کر روضہ اقدس ( حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) پر آیا اور یہاں آپ کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں دعا کی “بار الہا! تجھے اس امام مدفون کا واسطہ مجھے از سر نو بینائی عطا کر دے۔
یہ کہ کر جیسے ہی میں نے ضریح مبارک کو ہاتھوں سےمس کیا۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک روشنی نمودار ہوئی اور آواز آئی ‘جاتجھے پھر سے روشنی دی گئی۔ اس آواز کے ساتھ ہی میں ہر چیز دیکھنے لگا۔(صلوۃ بر محمد و ال محمد)